Posts

ابو ذر غفاری – تاریخ اسلام کا ایک بھولا بسرا ورق

Image
(تحریر: غلام رسول (مرحوم تاریخ ہمیشہ حکمران اور مقتدر طبقے لکھتے ہیں، اسی لیئے تاریخ انہی کے قصے کہانیوں، کارناموں، کامیابیوں اور ناکامیوں کے گرد گھومتی ہے، اور انہی کی مدح سرائی کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ جب بھی کبھی کسی فرد یا گروہ نے ان جابروں کے خلاف آواز اٹھائی، جب بھی ان طبقات کے مفاد کو ٹھیس پہنچانے کی کوشش کی گئی تو تاریخ نے ان باغیوں کے ساتھ ایک سوتیلی ماں کا سا سلوک کیا۔ ایسی آوازوں کا ذکر یا تو انتہائی متعصبانہ انداز سے کیا یا اس کو سرے سے ہی نظر انداز کر دیا گیا۔ تاریخ اسلام میں ایسی ہی ایک آواز ابو ذر نامی صحابی کی ہے، جنہوں نے غریبوں اور ناداروں کے حقوق کیلئے اپنے وقت کے فرعونوں کے خلاف آواز بلند کی اور اس کے نتیجے میں اپنے اہل خانہ کے ہمراہ ایک درد ناک موت مرے۔  ابو ذر ایک انتہائی معزز اور معتبر صحابی تھے، آپ کو ان صحابیوں کی صف میں شمار کیا جاتا تھا جو رسول اللہ کے سب سے زیادہ وفادار ساتھی گردانے جاتے تھے، یہ مرتبہ ابو ذر کے علاوہ حضرت سلمان فارسی، حضرت مقداد اور حضرت عمار بن یاسر کو حاصل تھا۔ آپ کا اصحابِ صفہ نامی گروہ سے تعلق تھا، یہ وہ لوگ تھے جو اپنا سب کچ

اسلام اور ہندومت

Image
تحریر:حامد غازی ( اللہ (اسلام -آپ پوری کائنات کے وارث ہیں (ایشور (ہندومت -آپ بهی پوری کائنات کے وارث ہیں ( جبرایل (اسلام آپ خدا اور نبیوں / اماموں کے درمیان پیغام رسانی کا کام کرتے ہیں (ناردمنی (ہندومت -آپ دیوتاؤں کے درمیان پیغام رسانی کے فرائض انجام دیتے ہیں ( محمد (اسلام -محمد خدا کے پیامبر تهے ، آپ کی گیارہ بیویاں اس کے علاوہ لونڈیاں بهی تهیں (کرشن (ہندومت -ایشور کے اوتار تهے ، کئی گوپیاں رکهتے تهے ( پنجتن (اسلام -یہ پانچ انسان دین خدا کے محافظ تهے (پانڈو (ہندومت -یہ پانچ انسان دهرم کے رکشک تهے ( علی (اسلام آپ پیامبر کے قریبی ساتهی اور ایک بہادر جنگجو تهے ، آپ کے کزنز (بنوامیہ) نے دین کی مخالفت کی تو آپ نے ان سے جنگ کی ، یہاں تک کے آپ کے بهائی عقیل بهی معاویہ سے مل گئے تهے (ارجن (ہندومت آپ بهگوان کشن کے قریبی ساتهی اور ایک بہادر جنگجو تهے ، آپ کے کزنز (کورؤ) نے دهرم کو ناش کرنا چاہا تو آپ نے ان سے جنگ کی ، یہاں تک کے آپ کا ماں جایا کرن بهی دشمن کی صفوں میں کهڑا تها اسلام بمقابلہ ہندو مت ( امام مہدی (اسلام آپ خدا کی

جہنم سے جہنم تک ، لونڈی جس کا نام راخل تھا

Image
تحریر: غالب کمال حشر سجا، لائے جا رہے تھے شاہ وِ شہنشاہ، نبی و رسول، سپہ سالار و سورما بیٹھا تھا ربِ زوالجلال مسندِ عدل پر، ہر ایک کے اعمال کے مطابق بدلہ دیتا ہوا۔ کافروں کو جہنم، مجاہدوں کو جنت کی نوید ہو رہی تھی، سرافین ہر فیصلے پر نرسنگے پھونکتے واہ واہ ہوتی، کفار و مشرک چیخ چیخ کر معافیاں مانگتے، مگر انصاف کا تقاضا تھا، قہار اور جبار پروردگار روز محشر کسی کی سننے والا نہیں تھا۔ اس گومگو کیفیت میں اسی درد و دہشت، انصاف و عدل کے میدان میں اک فاحشہ لائی گئی۔ اس کا نام رابعہ تھا۔ ربِ زوالجلال نے سوال کیا ؟ "تو کتنے مردوں کو بہکاتی رہی؟ کتنے مردوں کو بے راہ روی کی جانب مائل کیا، کتنوں کو تم نے جہنم میں پہنچا دیا؟ " وہ کانپ رہی تھی، پسینے سے شرابور، رب چلایا "بول بدکار عورت کیا تیرے گناہ تجھے یاد نہیں؟" وہ پھر بھی خاموش تھی۔ "تو نے اپنا جسم بیچ بیچ کر کتنی دولت کمائی، اپنی حرام کی اولاد کو اپنے ناپاک جسم کی کمائی کھلائی، اپنے بیٹیوں کو فاحشہ بنایا، ان کے جسموں کی کمائی کھائی" وہ پھر بھی خاموش تھی۔ بائیں ہاتھ کے اشارے سے رب نے اسے جہنم واصل کرنے کا حک

یا اللہ ہمیں جنت سے بچا

Image
تحریر:غالب کمال بہادر  شاہ ظفر دہلی کا آخری بادشاہ، مغلیہ سلطنت کا آخری چشم و چراغ، وہ نحیف سا بادشاہ جس کے پاس دہلی کے علاوہ کہیں کی بادشاہت نہیں تھی۔ جب انگریزوں نے دہلی فتح کیا تو بادشاہ کے گلے میں طوق ڈال کر اس کو ایک بگہی پر بٹھا کر سارے دہلی میں پھرایا گیا۔ مغلیہ آن بان اور شان کے وہ پرخچے اڑائے گئے کہ مغلیہ شان و شوکت ایک مذاق بن کر رہ گئی۔ مگر بہادر شاہ ظفر نے عیش و آرام کی زندگی گزاری تھی۔ باپ دادا کی دی ہوئی سلطنت کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا جس میں کئی محل اور حرم، خوبرو لونڈیوں اور کنیزوں سے بھرے ہوئے تھے۔ مغل بادشاہوں کا شیوہ تھا جب حرم کا رخ کرتے تو کئی کئی دن کنیزوں کی زلفوں کے اسیر ہو کر دنیا و مافیہا سے آزاد ہو جاتے، ایسی صورت میں وزیر مشیر سلطنت کے امور چلایا کرتے۔ بادشاہ شباب و کباب کے مزے لوٹنے میں اتنے مصروف ہوتے کہ باہر سلطنت لٹ جاتی ان کو معلوم ہی نہ ہوتا۔ مغلوں کے حرم جنت کا سماں پیش کرتے تھے، مگر ادھر کی حوروں کی چمڑی گوری مگر انسانی تھی، ان کے مباشرت حوروں جتنی طویل نہیں تھی۔ ان حرموں میں دنیا کی بہترین شراب ضرور ملتی تھی مگر وہ شراب طہور کا مقابلہ نہیں کر سکتی

خدا اور فرشتوں کے درمیان ایک مکالمہ

Image
تحریر: گلریز شمسی صحیح بخاری : 6045 اللہ تعالی کے کچھ فرشتے گھوم پھر کر اہل ذکر کو تلاش کرتے رہتے ہیں- جب انھیں کچھ ایسے لوگ ملتے ہیں جو اللہ کے ذکر میں مشغول ہوں تو وہ ایک دوسرے کو پکارنے لگتے ہیں کہ یہاں آو (تم جس چیز کی تلاش میں ہو وہ یہاں ہے-) چناچہ نچلے آسمان تک اپنے پروں کو پھڑپھڑاتے ہوئے ذکر کرنے والوں کو گھیرے میں لے لیتے ہیں-  اللہ تعالی کی تابعدار مخلوق فرشتےکی ایک خیالی تصویر مشہور صحابی رسول حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےاللہ کے نیک اور عبادت گذار بندوں سے متعلق فرمایا: ان کا (فرشتوں کا) رب ان (فرشتوں) سے دریافت کرتا ہےکہ میرے بندے کیا کہہ رہے ہیں؟؟ فرشتے عرض کرتے ہیں : آپکی تکبیر اور تسبیح کر رہے ہیں اور آپکی حمد اور بڑائ بیان کر رہے ہیں- اللہ تعالی فرماتے ہیں : کیا انھوں نے مجھے دیکھا ہے؟؟ فرشتے کہتے ہیں کہ نہیں خدا کی قسم انھوں نے آپکو نہیں دیکھا- اللہ تعالی فرماتے ہیں: اگر انھوں نے مجھے دیکھا ہوتا تو کیا ہوتا؟؟ فرشتے عرض کرتےہیں کہ اگر انھوں نے آپ کو دیکھا ہوتا تو

محمود غزنوی: لٹیرا یا بت شکن

Image
تحریر : غلام رسول مرحوم   محمود غزنوی الپتگین کے تُرک نژاد غلام سبکتگین کا بیٹا تھا۔ الپتگین نے اپنے غلام سبکتگین کو اس کی کارکردگی اور ذہانت کی وجہ سے پہلے خاص لوگوں کے حلقے میں شامل کیا اور بعد میں اسے لشکر کا سپہ سالار مقرر کر دیا۔ الپتگین کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا منصور تخت پر بیٹھا تو سبکتگین نے بغاوت کر کے غزنی پر قبضہ کر لیا۔ سبکتگین نے بعد میں بخارا پر بھی قبصہ کر لیا۔ اس فتح کے بعد سبکتگین نے ہندوستان کا رخ کیا۔ جے پال اور سبکتگین کے درمیان جنگ میں جے پال کو شکست ہوئی اور بہت سے علاقے سبکتگین کے زیر تسلط آ گئے، اس کے علاوہ سبکتگین کو بہت زیادہ مال غنیمت بھی ملا۔ سبکتگین نے اپنے بیٹے امیر اسماعیل کو جانشین بنایا، لیکن محمود اور امیر اسماعیل میں آپس میں نہ بن سکی، دونوں بھائیوں میں جنگ ہوئی جس کے نتیجے میں امیر اسماعیل کو شکست ہوئی اور اسےجرجان کے قلعے میں قید کر دیا گیا۔ اب سبکتگین کی سلطنت کا وارث محمود تھا۔سلطان محمود انتہائی بدصورت آدمی تھا، منہ پر چیچک کے داغ تھے، اسے خود بھی اپنی بدصورتی کا احساس تھا، اس لئے ایک دن اپنے وزیر سے کہا ”مشہور ہے کہ بادشاہوں کی صورت دی

ہندہ زوجہ ابو سفیان سنیوں ، شیعوں اور ملحدوں کی نظر میں

Image
تحریر:  گلریز شمسی ام المومنین حضرت ام حبیبہ کی والدہ ہندہ زوجہ ابو سفیان قریش کے ایک نا مور سردار عتبہ بن ربیعہ کی چہیتی صاحبزادی تھیں جنھوں نے اپنا بچپن اور جوانی اپنے کافر اور اسلام دشمن باپ کی شفقت تلے نہایت عیش و آرام میں گذارا - آپ کا پہلا شوہر حفص ابن مغیرہ جوانی ہی میں انتقال کر گیا جسکے با عث ایک شیر خوا ر بیٹے کی پرورش کی ذمہ داری تنہا آپ کے نازک کندھوں پر آ پڑی - والد کے بے حد اصرار کے با وجود آپ اپنے ہم عمر شخص کے ساتھ دوسری شادی پر راضی نا ہوئیں کیوں کہ آپ اپنے بیٹے پر سوتیلے رشتوں کا بوجھ نہیں ڈالنا چاہتی تھیں - یہی وجہ تھی کے آپ نے اپنی عمر سے کہیں زیادہ بڑے ال فکاہ سے شادی کر لی جو رشتے میں آپکے بیٹے کا تایا تھا - ال فکاہ نے ہندہ کے کردار سے متعلق شک میں مبتلا ہو کر ان سے علیحدگی اختیار کر لی - اس مو قع پر آپ کے کافر والد نے آپ کا بھرپور ساتھ دیا - جب آپ کی بے گناہی ثابت ہوگئی تو آپکے شوہر ال فکاہ نے آپ سے معذرت کرتے ہوے واپس گھر چلنے کی استدعا کی مگر آپ نے انکار کر دیا جب آپکی شوہر سے علیحدگی ہو گئی تو بہت سے لوگوں کی جانب سے آپکو شادی کے پیغامات موصول ہوۓ جن م