اے مظلوم بیٹیو تمہیں اسلام مبارک ہو

تحریر: غالب کمال 


کتنی بار بکی ہے حوا کی بیٹی؟ آدم کی پسلی سے نکلی حوا، خدا نے آدم کو مٹی سے بنایا اور عورت کو پسلی سے، انسانی نسل کی افزائش عورت کرتی ہے۔ پستی ہے کٹتی ہے۔ مرتی ہے، حوس کا نشانہ بننے سے لے کر گھر کی باندی بننے تک سبھی کچھ عورت سہتی رہتی ہے۔ مگر سب کچھ کرنے کے بعد بھی عورت مرد کے برابر نہیں بن سکتی، کیونکہ وہ کمزور ہے۔ کیونکہ وہ جسمانی طور پر ناتواں ہے، مگر اس کے ارادے مضبوط ہیں۔ عورتیں بادشاہ بنا دیتی ہیں، سکندر کی کامیابی میں اس کی ماں کا ہاتھ تھا۔ عورتیں نبی بنا دیتی ہیں، عیسیٰ کے معجزات اور محمد کی نبوت کی پہلی معترف عورتیں ہی تھی۔ مئے بنی تو مریم کی وجہ سے وحی کی تصدیق ہوئی تو خدیجہ کی وجہ سے۔
قبل از اسلام عورت کی مشکلات کا ذکر بارہا دیکھنے کو ملتا ہے، کہا جاتا ہے کہ لڑکیاں زندہ دفن کر دی جاتی تھیں، مگر ابوسفیان یا ابوجہل نے بھی اپنی بیٹیاں زندہ دفن نہیں کیں، بلکہ خدیجہ مکہ کی بااثر اور طاقتور خواتین میں سے تھیں، ان جیسی طاقت بعد از اسلام کسی عورت کو نہیں ملی۔ رسول اللہ نے بھی حضرت خدیجہ کی زندگی تک کسی اور عورت کی جانب آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ اگر لڑکیاں قبل از اسلام زندہ دفن کی جاتی تھیں تو بعد از اسلام زندہ رکھ کر دفن کی جاتی تھیں۔
مسلمان صرف مسلمانوں کو انسان اور مسلمان عورتوں کو عورت سمجھتے ہیں۔ عرب معاشرے میں لونڈیوں اور غلاموں کی بہتات تھی۔ یہ لونڈیاں غیر مسلموں پر حملے کرنے کے بعد بنائی جاتی تھی، عام طور پر ان کے باپ، بھائی، خاوند اور رشتہ دار ان کی آنکھوں کےسامنے قتل کر دئیے جاتے تھے۔ بعد ازاں فتح کی رات جشن کے طور پر ان سے زنا بالجبر کیا جاتا تھا۔
آپ اپنی بہن، بیٹیوں، بیویوں اور رشتہ داروں کو ان عورتوں کی جگہ پر رکھ کر سوچیں، آج ہندو پاکستان پر چڑھائی کریں، فتح مند ہونے کے بعد آپ کی عورتوں کو یرغمال بنائیں اور رات کو اپنے خیموں میں ان سے زنا بالجبر کریں تو کیسا عالم ہو گا۔ آپ کی بے بسی کیسی ہو گی؟ کیا آپ اللہ سے شکوہ کریں گے، کیا آپ اس کی خدائی پر شک کریں گے؟ یا پھر آپ ایشور کی طاقت کے معترف ہو جائیں گے؟ ایسا ہی کچھ حال غیر مسلموں کا بھی رہا ہے، اللہ اکبر کرتے مجاہدین ان کی عورتوں پر چڑھ دوڑتے تھے۔ ایسے میں ان 
کو اللہ شیطان سے بھی بد تر لگتا تھا۔


کمسن بچیوں کا ریپ مسلم صحابہ کی شان تھا 

یہ لونڈی عورتیں چند دن قبل آزادی سے اپنی زندگیاں گزار رہی ہوتی تھیں، اپنے بچوں کی پرورش کر رہی ہوتی تھیں، کوئی شادی کے خواب دیکھتی تھی تو کوئی اولاد پیدا ہونے کی خوشی، کوئی اپنے ماں باپ کی خدمت کر رہی ہوتی تھی، تو کوئی اپنے خاوند کی راہ دیکھ رہی ہوتی تھی۔ کوئی حاملہ ہوتی تھی، کوئی کمسن بچی کھیل کود میں مصروف ہوتی تھی، کوئی اپنے گھر میں بیماروں کی تیمارداری میں مصروف، کوئی اپنی بیٹیوں کو زمانے کے طور طریقے سکھاتی تھی، کوئی اپنے دیوتاؤں کی پوجا کر رہی ہوتی تھی، کسی کا خواب راہبہ بننا تو کسی کا کام عبادت میں مشغول رہنا۔ کمسن بچیوں کے نازک اور چھوٹے چھوٹے معصوم خواب ہوتے تھے، ہماری بہنوں اور بیٹیوں کی طرح معصوم، ہماری ماؤں کی طرح پاکباز اور سمجھدار، ہمدرد اور جفاکش، محبت اور احترام سے بھری ہوئی۔ دوسروں کا بھلا چاہنے والی چھوٹی چھوٹی باتوں پر ناراض ہونے والی، فکرمند ہونے والی، اپنے مردوں کی بانہوں میں تحفظ تلاش کرنے والی، سو جذبوں اور سو جذباتوں سے معمور، زندگی کی بے رحمی میں امید کا دیا جلائے ہوئے حوا کی بیٹیاں، مجبور، کمزور مگر پرعزم، اپنی زندگیاں بڑے آرام سے اپنے کمزور مردوں کی حفاظت میں گزارتی ہوئی۔
مگر پھر ایک دن اسلامی لشکر چڑھ آیا، اسلام کی دعوت دی، کافر مردوں نے اپنے مذھب کو ترک کر کے اسلام قبول کرنا گناہ جانا اور انکار کر دیا، وہ اسلام کے متعلق جانتے بھی کیا تھے۔ صرف کلمہ پڑھنے سے حملے سے بچ بھی سکتے تھے، مگر نہ کیا۔ کیوں کرتے وہ زرتشت مذھب تو جانتے تھے مگر اسلام سے ناواقف تھے، نبی اسلام نے ان کی گلیوں میں کبھی اسلام کی تبلیغ نا کی تھی۔ رسول اللہ آئے تھے لشکر لے کر فتح کرنے، محکوم کرنے، تبلیغ سے پہلے کلمہ پڑھانے، اسلام پر دلیل سے قائل کرنے کے بجائے تلوار سے قتل کرنے۔ لوگ قائل نہ ہوئے، شائد مسلمان بھی یہی چاہتے تھے، مسلمان شائد کافروں کی عورتیں ہتھیانہ چاہتے تھے، مسلمان ان کی دولت لوٹنا چاہتے تھے، جب انہوں نے اسلام قبول کرنے سے انکار کیا تو مسلمان دل ہی دل میں خوش ہوئے، کہاں غریب، جاہل، بھوکے عربی اور کہاں تہذیب یافتہ دنیا کے نفیس لوگ۔ ان لوگوں کی زمینیں زرخیز تھیں، ان کے شہر خوبصورت اور امیر اور ان کی عورتیں خوبصورت ترین۔
مگر افسوس ان لڑکیوں پر تھا، جہنوں نے شادی کے خواب سجائے تھے، جنہوں نے کسی رانجھے، کسی رومیو، کسی یوسف کے خواب آنکھوں میں سجائے تھے، اور ان کی کنوارگی مسلمانوں کے خیموں میں وحشی مفتوحین کا شکار ہوئی۔ وہ کمسن بچیاں جن کی عمر بمشکل 10 سال ہوتی تھی، قبلیوں کے سرداروں کی نوخیز بیٹیاں، جو موٹی توندوں والے صحابیوں کی جنونی جنسی وحشت کا شکار ہوئیں کونسا خدا ان کی حرمت کا بدلہ لے گا؟ وہ فارس اور تُرک بیٹیاں جو اپنے مالکوں کی زبان تک نہیں سمجھتی تھیں، وہ سہمی ہوئی لڑکیاں کیا ہجرہِ دھشت میں پہلی بار جنسی زیادتی پر روئی ہوں گی؟ کیا وہ اپنی فرج سے نکلتے خون کو دیکھ کر گھبرائی ہوں گی؟ کیا ان کی بے بسی تصور کی جا سکتی ہے؟ کیا ان کا دکھ سمجھا جا سکتا ہے؟ کیا جنسی زیادتی کرنے والے مفتوحین نیک انسان تھے؟ انسانیت کی رو سے تو وہ انسان ہی نہیں تھے۔ کیا جنسی عمل کی اس وحشت کے دوران ان لڑکیوں اور عورتوں کی آنکھوں کے سامنے اپنے مردہ رشتہ داروں کے چہرے آتے تھے؟ کیا ایک خیمے میں زیادتی کا شکار ہوتی ماں کو ساتھ کے خیمے میں درد سے کراہتی اپنی بیٹی کی آوازیں آتی ہوں گی؟ کیا وہ ڈرتی ہو گی کہ اس کی کمسن بیٹی اگلی صبح زندہ بھی ہوگی کہ نہیں؟ کئی بیٹیاں اگلی صبح مردہ بھی پائی جاتی ہوں گی۔ کئی ایسی بھی ہوں گی جو مزاحمت کرتی ہوں گی، ان پر تشدد بھی ہوتا ہو گا، ان کو قتل بھی کر دیا جاتا ہو گا۔ کئی ایسی بھی ضرور ہوں گی جو ایک رات میں درجن بھر مسلمانوں کی جنسی ہوس کا شکار ہو کر زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے مر جاتی ہوں گی۔
مگر مسلمان یہ کبھی نہیں مانیں گے، مگر ہم یہ کبھی نہیں مان سکتے کہ جنگ بھلائی کا باعث بن سکتی ہے، ہم یہ نہیں مان سکتے کہ جو چیز جنگ کے ذریعے سے پھیلائی جائے اس کو بھلائی کہا جا سکتا ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ خون سے لبریز ہے۔ دنیا میں فوجوں نے ملکوں پر چڑھائی کر کے وہ سب کچھ کیا ہے جس کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے، مگر نبوت اور خدا کے نام پر بھلائی کے لبادے میں بھیڑیوں والے فعل شائد ہی کسی اور نے کئے ہوں۔ کیا ابوجہل نے بھی شوہر اور باپ بھائیوں کے قتل کی رات کسی لڑکی سے مباشرت کی تھی؟ اگر کی تھی تو حوالہ مہیا کیا جائے۔
آج مسلمان چیخ چیخ کر کہتے ہیں ہندو فوج کشمیر میں ہماری بیٹیوں کے ریپ کر رہی ہے(جو کہ قابل مذمت ہے)۔ مگر ان کو اپنی تاریخ کے اوراق میں سرورق سنہری حروف میں لکھے ہوئے ریپ اور ریپسٹوں کے نام نظر نہیں آتے۔ عجیب اندھی لوگ ہیں۔
داعش سے منسلک ایک کمانڈر کا انٹرویو دیکھنے کا اتفاق ہوا، ایک یزیدی عورت جو خود داعش کی لونڈی رہ چکی تھی اس سے سوال کرتی ہے کہ اس نے کتنے یزیدیوں کو قتل کیا، وہ جواب دیتا ہے کہ اس نے 900 یزیدیوں کو قتل کیا۔ پھر وہ بتاتا ہے کہ اس نے 50 کمسن لڑکیوں اور 200 جوان عورتوں کو زنا بالجبر کا نشانہ بنایا، یہ سب دیکھنے کے بعد اسلامی معرکوں میں جنسی زیادتیوں کی داستانیں میری آنکھوں کے سامنے گھوم گئی۔ اس کمانڈر سے جب پوچھا گیا کہ جب تم کمسن لڑکیوں کا ریپ کرتے تھے، کیا وہ روتی تھی؟ اس نے جواب دیا ہاں، اس پر کہا گیا، تمہیں ترس نہیں آتا تھا؟
اسلام کافروں پر ترس کھانے کی اجازت نہیں دیتا، یہ کافروں کو دہشت زدہ کرنا چاہتا ہے، یہ ان کے بچوں اور بچیوں پر بھی ترس نہیں کھاتا، سسیکوں، چیخوں اور آہوں سے اسلام کو کوئی مطلب نہیں۔ اسلامی شریعت ہمارے سامنے ہے حدیث کی کتابیں ہمارے سامنے ہیں۔ کہیں رسول اللہ نے یہ نہیں کہا کہ خوف کا شکار عورت سے زبردستی زیادتی مت کرو۔ لونڈی صرف جنسی لطافت کے لئے ہی تو تھی، لونڈی صرف اور صرف گوشت کا ایک لوتھڑا تھی، اس میں دل دماغ، جذبات، احساسات اور غم کچھ نہیں ہوتا تھا۔ لونڈیاں روبوٹ ہوتی تھی۔ اس لئے ان کو جیسے چاہے استعمال کیا جائے، بعد ازاں بیچ دیا جائے، دن کو مشقت کرائی جائے اور رات کو بستر گرم کروایا جائے۔ ہوس انسانیت سے مقدم ہے، ہوس رحم سے مقدم ہے، ہوس پوری کرنا عین اسلامی ہے۔
دنیا کے سارے چکلے، دنیا کی تمام فاحشائیں، ان لونڈیوں سے لاکھ گنا بہتر ہیں، لونڈی اپنے جسم کی قیمت وصول نہیں کرسکتی، وہ اپنی مشقت کی کمائی نہیں کھا سکتی۔ ان لونڈیوں کی بیٹیاں اور بیٹے غلام بنائے گئے اور کہاں لے جائے گئے وہ نہیں جانتی، ان کے خاوند ان کی آنکھوں کے سامنے قتل ہوئے۔ انہوں نے ساری زندگی اپنے خاوند سے محبت کی اس سے وفاداری کی مگر فتحِ اسلام کے بعد چاہ کر بھی اس سے وفادار نہیں رہ سکتی تھی۔
بیٹیوں والو ان بوڑھے باپوں کی حالت بھی سوچو جن کی بیٹیاں ان کی آنکھوں کے سامنے لمبی لمبی داڑھیوں والے وحشی عربی لے گئے تھے، جن کی بیٹیاں مال غنیمت تھی، جن کی زندگی کے آخری لمحات اپنے بیٹیوں، بہوؤں اور بیویوں کو غلام بنتے دیکھنا تھا۔ جنہوں نے اپنی زندگیاں ایمانداری اور محبت سے گزاری تھی، جنہوں نے اپنی عورت کے سوا کسی دوسری عورت کو نہیں چھوا تھا، جنہوں نے اپنی بیٹیوں کی شادیاں کرنی تھی۔ محبت کا قتل ہوا، خاندانی نظام کا قتل ہوا، انسانیت کا قتل ہوا، کس کس چیز کا قتل نہیں ہوا، کون کون سا انسانی رشتہ پامال نہیں ہوا؟ گنتی کرنے بیٹھیں تو زندگی بیت جائے۔ خون اور ہوس کی داستان پھر بھی ختم نہیں ہو گی۔ پھر کہتے ہو اسلام تلوار سے نہیں پھیلا؟ اگر امن سے پھیلا ہے تو اپنے بس میں آئی ان مظلوم لونڈیوں کو اسلام کی دعوت دیتے، ان کو تحفظ دیتے تو کیا وہ اسلام قبول نہ کرتیں۔ رسول اللہ نے مکے میں اپنے رشتے داروں کو غلام لونڈی نہیں بنایا تھا۔ ان کی رشتہ دار عورتوں کو جنسی ہوس کا نشانہ نہیں بنایا گیا تھا۔ ہاں مگر بعد ازاں کافر غیر عربوں پر اسلام نے کیا کیا ظلم کئیے سوچ کر روح کانپ 
جاتی ہے۔


-------------------------------- مرکزی صفحہ ------------------------------

Comments

Popular posts from this blog

معراج نبوی ــ قرآن احادیث اور تاریخ کی روشنی میں

ایک کہانی بہت پرانی

خدا اور فرشتوں کے درمیان ایک مکالمہ