یا اللہ ہمیں جنت سے بچا

تحریر:غالب کمال



بہادر شاہ ظفر دہلی کا آخری بادشاہ، مغلیہ سلطنت کا آخری چشم و چراغ، وہ نحیف سا بادشاہ جس کے پاس دہلی کے علاوہ کہیں کی بادشاہت نہیں تھی۔ جب انگریزوں نے دہلی فتح کیا تو بادشاہ کے گلے میں طوق ڈال کر اس کو ایک بگہی پر بٹھا کر سارے دہلی میں پھرایا گیا۔ مغلیہ آن بان اور شان کے وہ پرخچے اڑائے گئے کہ مغلیہ شان و شوکت ایک مذاق بن کر رہ گئی۔ مگر بہادر شاہ ظفر نے عیش و آرام کی زندگی گزاری تھی۔ باپ دادا کی دی ہوئی سلطنت کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا جس میں کئی محل اور حرم، خوبرو لونڈیوں اور کنیزوں سے بھرے ہوئے تھے۔ مغل بادشاہوں کا شیوہ تھا جب حرم کا رخ کرتے تو کئی کئی دن کنیزوں کی زلفوں کے اسیر ہو کر دنیا و مافیہا سے آزاد ہو جاتے، ایسی صورت میں وزیر مشیر سلطنت کے امور چلایا کرتے۔ بادشاہ شباب و کباب کے مزے لوٹنے میں اتنے مصروف ہوتے کہ باہر سلطنت لٹ جاتی ان کو معلوم ہی نہ ہوتا۔ مغلوں کے حرم جنت کا سماں پیش کرتے تھے، مگر ادھر کی حوروں کی چمڑی گوری مگر انسانی تھی، ان کے مباشرت حوروں جتنی طویل نہیں تھی۔ ان حرموں میں دنیا کی بہترین شراب ضرور ملتی تھی مگر وہ شراب طہور کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی۔ ان کی حوروں نے خوبصورت نیم برہنہ لباس زیب تن کر رکھے ہوتے تھے جو بہرحال حور کے سو نورانی جوڑوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے۔ اور یہ حرم کی کنیزیں سلطنت مغلیہ کے ہر کونے سے ماں، باپ، بہن، بھائیوں سے چھین کر لائی گئی ہوتی تھی۔ مگر حرم کا سماں جنت کا سماں تھا، یہاں بہتر کے بجائے سینکڑوں ہزاروں کنیزوں موجود رہتی تھیں۔ ان کنیزوں کو آداب مباشرت سے لے کر شعر و شاعری سبھی کچھ سکھایا جاتا تھا۔ ایک شہنشاہ ہزار کنیزیں، رنگ و سروراور مباشرت کی کس قسم کی محفلیں سجا کرتی تھی اس کا ہم صرف اندازہ کر سکتے ہیں۔ مغلوں کے حرم حسن بن صبا کی جنت سے کہیں دلکش اور دلفریب ہوتے تھے اگر دنیا میں جنت کا سماں کہیں پیش ہوا تو وہ مغلوں کے حرم ہی تھے۔

مگر مسلمانوں سے جنت کا وعدہ ہوا ہے۔ ہر مسلمان جنت میں حوریں پائے گا۔ ایسی حوریں جن کو کسی انسان اور جن نے چھوا تک نہ ہو گا، وہ ایسی خوبصورت ہونگی کہ ایسا حسن کبھی کسی نے دیکھا نہ ہو گا۔ اگر حور آسمان سے انگلی کا کونا ہی نکال دے تو سورج شرما کر بھاگ جائے۔ مگر جنت ہے کیا؟ جنت کاہل اور سست بادشاہوں کے حرم سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ جنت ایک ایسے فریب کا نام ہے جس میں جنسی لطافت انسان کو مدحوش کر کے دنیا و مافیہا کی سوچ سے آزاد کر دے۔ وہ جہاں انسان کھو جائے، جس کے بدلے وہ اپنی سلطنت اپنے وزیروں اور مشیروں کے حوالے کر دے۔ اگر ایک حرم اور اس کی کنیزوں کی شرمگاہوں کی خواہش میں مغل بادشاہوں نے اپنی پوری پوری سلطنتیں بھلا دیں تو کیا انسان جنت کے لالچ میں اپنی زندگی داؤ پر نہیں لگا سکتا؟ کتنے ہی جنت کے شوق میں پھٹ کر چیتھڑے کروا چکے ہیں، کتنے ہی اس جنت کے پیچھے اپنی زندگیاں برباد کر چکے ہیں۔

مغل حکمرانوں کی عیاشیوں کا ایک منظر

مگر جنت میں کیا ہے؟ کیا جنسی تسکین، شراب شباب اور
 کھانے پینے کے علاوہ جنت میں انسان کا کوئی اور کام بھی ہے؟ کیا انسان کی زندگی اور انسان کی سوچ کا محور صرف جنسی لطافت اور خوراک ہے؟ مغلوں نے جنسی لطافت اور خوارک کے پیچھے کیا کچھ نہیں کھویا، تاج دہلی کو حرموں اور کنیزوں سے جنسی لطافت حاصل کرنے والے بادشاہوں نے کیا کیا نقصان نہیں دئیے؟ دوسری جانب انگلستان کے بادشاہ جو ایک شادی کرنے والے نا کوئی حرم نہ کوئی کنیز، ادھر ادھر گلچھڑے ضرور اڑاتے تھے۔ مگر عورت کی زلف کے اس قدر اسیر نہ تھے۔ ساری دنیا پر حکومت کرتے رہے، مرد کے بجائے عورتیں حکومت کرتی رہیں، دنیا کے بحرین اربعہ پر حکومت کرتے رہے۔ نا کوئی حرم نہ کوئی جنت کا سماں پیدا کرنے کی خواہش نہ کوئی کنیز نہ کوئی غلام، جو حرم کے نرم و گرم بستروں میں بادشاہ یا ملکہ کی راہ دیکھ رہا یا رہی ہو۔ برطانیہ نے ساری دنیا پر راج کیا ان کا قانون اور اطوار آج بھی دنیا کی قوموں میں صادر ہیں۔ آج بھی لوگ ان کے رعب اور دبدبے کے معترف ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے دئیے ہوئے نظام کے گرویدہ اور شکرگزار ہیں۔
ہم ساری زندگی اللہ کی فرمانبرداری اور اطاعت میں اس لئے گزارتے ہیں کہ ہمیں جنت میں حسین عورتوں سے خلوت کرنے کا موقع ملے گا؟ خدا اتنا کوڑ مغز ہے یا ہم اتنے کوڑ مغز ہیں؟ اگر ہمیشہ زندہ رہنا ہے تو 72 عورتوں اور ایک جنت ہی ہمارا مسکن ہو گی؟ کیا اس جنت کے موتی کے محل اور اس میں موجود شراب طہور ہمیں بہلانے کے لئے کافی ہے؟ کیا جنت میں ستر ستر سال کی مباشرت صرف اس لئے ہو گی کہ ہمارے پاس وقت بہت ہے اور کرنے کا کوئی کام نہیں؟ کیا انسانی زندگی کا ایک ذیلی فعل جس پر بمشکل انسان اپنی زندگی میں کچھ گھنٹے ہی گزارتا ہے، اتنا اہم ہو جائے گا کہ جنت کی زندگی کا زیادہ وقت اس میں صرف ہو۔ محاورہ سنا تھا احمقوں کی جنت مگر آج معلوم ہوا جنت تو ہے ہی احمقوں کی، صرف جنسی لطافت صرف سیکس؟ کیا ہے یہ؟ کیا انسانی ذہانت و شعور کی معراج صرف جنسیت اور جنسی عمل تک محدود ہو کر رہ جائے گی۔ کیا انسان جنت میں حوروں کے کولہے ناپنے میں سیکنڑوں برس صرف کر دے گا؟
مرنے کے بعد اگر کوئی خدا ہوا؟ اور اس نے مجھے ایسی سیکس پیراڈائز دینے کی آفر کی تو میں انتہائی مودبانہ انداز سے انکار کر دوں گا، میں اس سے مطالبہ کروں گا کہ مجھے اس مادی کائنات اور اس کے سربستہ رازوں کی سمجھ بوجھ عطا کر دے اور ایک عدد سپیس شپ دے دے جس کو استعمال کرتے ہوئے میں اپنی لامتناہی اور لامحدود زندگی اس کائنات کی ایک ایک کہکشاں، ستارے، سیارے اور چاند کو دریافت کرنے میں گزاروں۔ میں ستاروں کی پیدائش اور موت کو دیکھوں، میں دوسرے سیاروں پر بستی زندگی کو دیکھوں، میں ذہین جانداروں سے رابطے کروں۔ میں کہکشاؤں کے زندگی اور موت کا مشاہدہ کروں۔ میں بلیک ہول کے پیٹ میں اتر کر دیکھوں۔ میں الیکٹران اور پروٹان سے چھوٹا ہو کر ان کے باہمی تعلقات کا مشاہدہ کروں۔ میں کائنات کے سربستہ رازوں کو دریافت کروں ان کے بارے میں سوچوں۔ میں جانوں کیسے بگ بینگ ہوا، کیسے سپر نووا ستارے پھٹتے ہیں، کیسے زمین اور اس پر بسنے والے برائے اعظم ملتے اور جدا ہوتے ہیں۔ چاند کیسے بنا، سورج کیسے مرے گا۔ مریخ کی مٹی پر کھڑے ہونے کا مزا کیا ہے۔ مشتری کے چاند کی سطح کے نیچے کیا ہے، عطارد اور پلوٹو کے مدار کیسے ہیں۔ ایلفا سنٹاری کی روشنی میری جلد کو کیسے حرارت پہنچائے گی۔ پیگاسس کے ستارے ہم سے کتنے دور ہیں۔ پیرینڈیز کے ستارے کیسے ہیں۔ انڈرومیڈا میں کتنی ترقی یافتہ تہذییبیں ہیں۔ کائناتی افق کے پار کیا ہے۔ ہبل ڈیپ فیلڈ میں نظر آنے والی کہکشائیں اب کیسی دکھتی ہیں۔ زمین پر زندگی کی شروعات کیسے ہوئی تھی۔ نیانڈراٹال کیا زبان بولتے تھے۔ زندگی پانی سے خشکی پر کیسے آئی؟ سوالات کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ ہے، لامحدود زندگی اس لامحدود کائنات میں تحقیق کرنے میں صرف کرنے سے بہتر مصرف انسان کے پاس نہیں ہو سکتا۔
مگر خدا کیسا خدا ہے جس نے انسان کو جنت جیسے کھوٹے سکے پر ٹرخا دیا ہے، جس نے اس کی لامحدود زندگی کو حور کی ٹانگوں تک محدود کر دیا ہے۔ ایسے خدا کو اور اس کی پست سوچ کو سنگسار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کی اس سوچ کو مصلوب کرنے کی ضرورت ہے، جو سیکس سے آگے نہیں جاتی۔ یا اللہ یا اللہ! ہمیں بہادر شاہ ظفر مت بنا، ہمیں ملکہِ برطانیہ بنا جس نے دنیا کے ساتھ سمندروں پر راج کیا۔


-------------------------- مرکزی صفحہ -----------------------------

Comments

  1. کیا بکواس کی ہے تو نے، قلم کا انتہائی گستاخانہ استعمال کیا ہے، کیا سمجھتے ہو خود کو چیونٹی سے بھی چھوٹے ذہن والے، جب راز شمجھ نہیں أتی تو اپنے اندر خوب جھانکو تو کچھ نہ کچھ فہم حاصل ہوگی، اور رفتہ رفتہ ذہن کھل جا ئیگا نا عاقبت اندیش۰۰

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

معراج نبوی ــ قرآن احادیث اور تاریخ کی روشنی میں

ایک کہانی بہت پرانی

خدا اور فرشتوں کے درمیان ایک مکالمہ