میدان احد --- جب رضیہ غنڈوں میں پھنس گئی

تحریر : گلریز شمسی



کہتے ہیں کہ سچا مومن وہ ہے جو الله پر مکمل بھروسہ رکھتا ہے اور مشکل وقت میں صرف اور صرف الله کو پکارتا ہے اور اس ہی سے مدد مانگتا ہے - مگر غزوہ احد میں جب رسول الله دشمنوں میں گھر گئے تو موت کے خوف سے آپ کی گھگھی بن گئی اور آپ اللہ کو پکارنے کے بجاۓ صحابہ کو پکارنے لگے -
.
ابن ہشام کی جلد نمبر دو کے صفحہ نمبر چوراسی پر درج ہے کہ میدان احد میں ایک وقت رسول الله پر مشرکین کا ایسا دباؤ بڑھ گیا کہ آپ نے بلند آواز میں متشر صحابہ کو مخاطب کیا اور فرمایا:
" کوئی ہے جو ان مشرکین کو مجھ سے دور کر دے اور جنت میں میرا رفیق بنے ؟؟ "


حق و انصاف کے علمبردار مسلمان مجاہدین 

محمد کی اس التجا کے جواب میں جو سات صحابہ سامنے آئے ان میں سے ایک سعد بن ابی وقاص بھی تھے – آپ نے دشمن کی صفحوں میں ایک ہزار سے زائد تیر پھینکے – انہوں نے رسول الله کو اپنی پیٹھ کے پیچھے لے لیا اور مشرکین کی جانب سے جتنے بھی تیر آتے انہیں اپنے اہنی ہاتھوں اور سینے پر روک لیتے – رسول الله اپنے ترکش کے تیر نکل نکل کر حضرت سعد کے آگے رکھ دیتے اور فرماتے 
  
" تیر چلاؤ، تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں " (بخاری ، غزوہ احد ، صفحہ 581)

سیدنا علی فرماتے ہیں کہ میں نے ایسے کلمات سواۓ سعد بن ابی وقاص کے ، کسی اور کے لئے نہیں سنے –

حضرت سعد بن ابی وقاس فرماتے ہیں کہ اسی معرکہ احد میں میرا ایک کافر بھائی عتبہ بن ابی وقاص کافروں کے ساتھ لڑنے آیا تھا – اس نے موقع پاکر رسول الله پر پتھر پھینکا جس سے آپکا دندان مبارک شہید ہو گیا اور نیچے کا ہونٹ پھٹ گیا اور اس حادثے پر رسول الله لڑکھڑا گئے- فدا کاروں نے رسول اللہ کو سنبھال لیا – اس وقت میں اپنے کافر بھائی عتبہ بن ابی وقاص کے قتل کا جس قدر متمنی اور حریص ہوا اتنا کسی اور کے قتل کا حریص کبھی نہ ہوا - (فتح الباری ، جلد نمبر سات ،صفحہ نمبر 281)

محمد کی آہ و بکاہ اور التجاؤں سے متاثر ہو کر سعد بن ابی وقاص کے علاوہ جو لوگ آپکی مدد کے لئے آگے پڑھے ان میں سے ایک طلحہ بن عبیداللہ بھی تھے -


غزوہ احد میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ مشرکین کے پتھراؤ اور دباؤ کے با عث محمد ایک گڑھے میں گر پڑے - حضرت علی اور حضرت طلحہ اپنی جانوں کی پروا نا کرتے ہوے آگے بڑھے اور آپکو سہارا دے کر کھڑا کر دیا – مگر آپ شاید بہت خوفزدہ تھے اسلیۓ دوبارہ گر پڑے – آپ چونکہ موت کے خوف کے باعث تھر تھر کانپ رہے تھے اسلیۓ قدم کہیں رکھتے اور پڑتا کہیں – حضرت طلحہ نے جب یہ صورت حال دیکھی تو آپکو اپنے کندھوں پر اٹھا کر ایک اونچی جگہ چڑھا دیا – سیدنا زبیر فرماتے ہیں کے میں نے اس موقع پر رسول الله کو فرماتے سنا کہ" طلحہ نے اپنے لئے جنت واجب کرلی . طلحہ نے اپنے لئے جنت واجب کر لی- "

حضرت قیس بن حازم فرماتے ہیں کہ میں نے طلحہ کا وہ ہاتھ دیکھا جس سے انہوں نے رسول الله کو مشرکین کے تیروں سے بچایا تھا وہ ہاتھ بلکل شل ہوگیا تھا-

حضرت جابر بن عبدللہ فرماتے ہیں کہ دشمنوں کے بے در پے وار روکتے روکتے طلحہ کی انگلیاں کٹ گئیں تھیں – اس روز طلحہ کو انتالیس گہرے زخم آئے-

حضرت عایشہ فرماتی ہیں کہ میرے والد حضرت ابو بکر صدیق جب بھی غزوہ احد کا ذکر فرماتے تو یہ ضرور کہتے کہ: " یہ سارا دن تو طلحہ کے لئے رہا- "

محمد کی مدد کےلئے آگے پڑھنے والوں میں ایک نام حضرت حضرت قتاوہ بن نعمان کا بھی ہے – حضرت قتاوہ فرماتے ہیں کہ احد کے دن میں بھی رسول الله کی حفاظت کے لئے آپکے سامنے آگیا تھا تاکہ دشمنوں کا کوئی تیر آپکو زخمی نا کر سکے – دشمن کے ہر تیر کو اپنے ہاتھ اور سینے پر روکتا رہا – دشمن کا ایک تیر میری آنکھ پر ایسا لگا کہ میرا دیدہ باہر نکل آیا – میں نے اسے اپنے ہاتھ میں لیا اور رسول الله کی خدمت اقدس میں آیا – رسول الله نے میری یہ حالت دیکھی تو آپ آب دیدہ ہوگئے اور دعا فرمائی :
" اے اللہ جس طرح قتاوہ نے تیرے نبی کے چہرے کی حفاظت کی ہے تو بھی اسی طرح اسکے چہرے کی حفاظت فرما "

یہ دعا دے کر آپ نے دیدے کو اسکی جگہ پر رکھ دیا – الله کی قسم اسی وقت میری آنکھ صحیح سالم ہوگئی، بلکہ پہلے سے بھی بہتر اور تیز ، پھر زندگی بھر کبھی خراب نہ ہوئی – (الاصابہ ، جلد نمبر تین ، صفحہ نمبر325 )


یہ تو تھے جانثاران نبی کی جان نثاری کے کچھ کارنامے جو بلاشبہ یہ بات ثابت کر تے ہیں کہ کچھ اصحاب کرام بہادری اور شجاعت میں اپنی مثال آپ تھے – مگر جہاں تک رسول الله کے خدا کی ذات پر ایمان کامل کا معاملہ ہے ان کی ذات میں موجود چالیس مردوں کے برابر قوت کا معاملہ ہے اس سے متعلق کچھ اہم سوالات ضرور ذہن میں آتے ہیں – مثال کے طور پر :

١- رسول اللہ نے مشکل وقت میں خدا کے بجاۓ صحابہ کو کیوں پکارا ؟؟؟ کیا آپ کو خدا کی ذات پر کم بھروسہ تھا اور اپنے صحابہ پرزیادہ بھروسہ تھا ؟؟ اگر ایسا تھا تو اسکی وجہ کیا تھی ؟؟

٢- رسول الله نے اپنی زندگی کی خاطر اپنے صحابہ کی زندگیوں کو خطرے میں کیوں ڈالا ؟؟ کیا آپکو شہادت کا شوق نا تھا ؟؟ اگر واقعی آپکو شہادت کا شوق نا تھا تو اسکی وجہ کیا تھی ؟؟؟

٣- رسول الله کو جب سعد بن ابی وقاص نے اپنی اوٹ میں لے لیا تھا تو آپ اپنے ترکش سے تیر نکال نکال کر انکے آگے رکھ رہے تھے اور اپنے ماں باپ کو ان پر قربان کرتے ہوے انھیں تیر چلانے پر اکسا رہے تھے ، مگر کیا وجہ تھی کہ آپ خود تیر نہیں چلا رہے تھے ؟؟؟ کیا آپ ایک سیدھی سادھی گھریلو عورت میں تبدیل ہو گیۓ تھے اور آپ نے چوڑیاں پہن رکھی تھیں ؟؟؟ اس وقت آپکے وجود میں موجود چالیس مردوں کے برابر طاقت کہاں سو گئی تھی ؟؟؟

٤- یہ ایک حقیقت ہے کہ غزوہ احد میں صحابہ نے اپنی جان پر کھیل کر رسول الله کو شدید زخمی ہونے سے بچا لیا تھا مگر کیا وجہ تھی کہ آپ خود سے کسی اونچی جگہ پر نا چڑھ سکے اور جنگ میں پوری طرح مصروف ہونے کے باوجود طلحہ بن عبید الله کو آپکو کندھے پر اٹھا کر اونچی جگہ چڑھانا پڑا؟؟ کیا آپ چھوٹے سے بچے تھے ؟؟؟

٥- جب قتاوہ بن نعمان اپنی آنکھ (جو کہ تیر لگنے سے باہر نکل گئی تھی ) لے کر رسول اللہ کے پاس پہنچے اور آپ نے انکی آنکھ کا دیدہ اسکی جگہ پر رکھ دیا تو آنکھ ٹھیک ہوگئی- مگر رسول الله نے اپنا ٹوٹا ہوا دانت کیوں کسی معجزے کے زریعے نہیں جوڑ لیا جوکہ عتبہ بن ابی وقاص نے پتھر مار 
کر توڑ دیا تھا ؟؟؟

کیا خیال ہے مومنوں --- یہ کوئی جواب ان سوالات کا ؟؟




------------------------- مرکزی صفحہ --------------------


Comments

Popular posts from this blog

معراج نبوی ــ قرآن احادیث اور تاریخ کی روشنی میں

ایک کہانی بہت پرانی

خدا اور فرشتوں کے درمیان ایک مکالمہ