ایک کہانی بہت پرانی
تحریر : گلریز شمسی
کسی ملک میں ایک بادشاہ حکومت کیا
کرتا تھا - وہ تھا تو بے
حد بیوقوف مگر خود کو بہت عقلمند سمجھتا تھا اور اس کی خواہش تھی کہ باقی تمام لوگ
بھی اسکو عقلمند سمجھیں - اسکے درباری
امراء کیونکہ بادشاہ کی فطرت سے اچھی طرح واقف تھے لہٰذا ہر وقت اسکی عقلمندی کی
جھوٹی تعریفیں کر کے ڈھیروں انعامات وصول کرتے رہتے تھے - بادشاہ چونکہ خود کو بے حد عقلمند سمجھتا تھا لہذا وہ اپنے ارد
گرد بھی عقلمند افراد ہی چاہتا تھا- جس کسی امیر یا وزیر کے بارے میں بادشاہ کو ذرا سا بھی
شک ہوجاتا کہ وہ بیوقوف ہےتو بادشاہ سلامت فورا اسکو عہدے سے فارغ کرکے قید
میں دلوادیتے –
وقت اسی طرح گزرتا رہا اور بادشاہ کی اس نام نہاد عقلمندی (بے وقوفی ) کی
شہرت دور دور تک پھیل گئی- یہی شہرت جہاں
ہر شخص تک پہچی ، وہیں ایک ایسے شخص تک بھی پہچ گئی جو بے حد مکار اور چالاک تھا -
اس شخص نے بیوقوف بادشاہ کو مزید بیوقوف بنا کر فائدہ اٹھانےکا منصوبہ بنایا -
وہ شخص ایک ماہردرزی کے بھیس میں
بادشاہ سلامت کے دربار میں حاضر ہوا اور بادشاہ کی ذہانت اور فہم و فراست کی خوب
جھوٹی تعریفیں کیں- بادشاہ اپنی عقلمندی
کی تعریفیں سن کر خوشی سے پھولے نہ سمایا - جب اس شخص نے دیکھا کہ بادشاہ پوری طرح
اسکے جال میں پھنس چکا ہے تو اس نے بڑے ہی مودبانہ انداز میں عرض کیا کہ :
" بادشاہ سلامت
آپ چونکہ دنیا کے سب سے عقلمند
انسان ہیں لہذا یہ عام شاہی لباس بے حد قیمتی ہونے کے باوجود کسی بھی طرح آپ کے
شایان شان نہیں - میں آپ کے لئے ایک ایسا لباس تیار کرنا چاہتا ہوں جیسا نہ تو آج تک کسی نےسنا ہوگا ، نہ دیکھا
ہوگا اور نہ ہی پہنا ہوگا - اس لباس کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہوگی کہ اسے صرف
عقلمند لوگ ہی دیکھ سکیں گے-"
یہ سننا تھا کہ بادشاہ خوشی سے
پھولے نہ سمایا اور فورا درزی سے لباس
سلوانے کے لئے تیار ہوگیا - اس نے وزیر کو حکم دیا کہ وہ. اس درزی کو ضرورت کی وہ
تمام اشیاء فراہم کرے جو اسے لباس کی تیاری کے لئےسلسلے درکار ہوں -
درزی کے مطالبے پر وزیر نے ملک کے
ایک نسبتاً کم آبادی والے علاقے میں اسے ایک بڑا سا مکان فراہم کیا جس میں لباس کی
تیاری میں استمعال ہونے والی تمام اشیاء کا وافر مقدار میں ذخیرہ کر دیا گیا، ان اشیاء میں
قینچیاں ، سوئیاں، سونے چاندی کے تار ،
قیمتی پتھر ، ہیرے جواہرات اور سچے موتی
شامل تھے –
اگرچہ وزیر نے
مکان میں کافی ساری قیمتی اشیاء کا ذخیرہ کر دیا تھا مگر درزی کو وہ اشیاء ناکافی
معلوم ہوئیں اور وہ آئے دن مزید سونے چاندی کے تاروں ، ہیرے جواہرات، اور دیگر
قیمتی اشیاء کا مطالبہ کرتا رھتا – وزیر کو درزی کی نیت پر شک تھا مگر وہ بے چارہ
اس خوف سے خاموش رہا اور چپ چاپ مکار درزی کی فرمائشیں پوری کرتا رہا کہ کہیں
بادشاہ اسکو بے وقوف قرار دے کر قید میں نا ڈلوادے-
تقریبا ایک
ماہ تک یہ سلسلہ جاری رہا اور درزی دونوں ہاتھوں سے دولت لوٹتا رہا – اب بادشاہ
سلامت کی بے چینی اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی اور وہ دن میں کئی کئی بار وزیروں اور مشیروں کو درزی
کی خبر گیری کے لیۓ بھیجنے لگے – جب درزی نے یہ صورت حال دیکھی تو عافیت اسی میں
جانی کہ اس سلسلے کو ختم کرے اور اپنی چالاکی سے
اب تک ہتھیائی ہوئی دولت لے کر رفو چکر ہو جاۓ - لہذا اس نے بادشاہ کے حضور خوشخبری پہچائی کہ
لباس تیار ہو چکا ہے –
اب تو بادشاہ
سلامت کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نا تھا -
انہوں نے فورا دارلحکومت میں اعلان کروا دیا کہ آیندہ روز صبح ہی صبح
وہ اپنے نئے لباس میں شہر کا دورہ کریں گے
اور ساتھ ہی تمام شہریوں کو یہ حکم بھی دے دیا گیا کہ وہ سڑکوں کے کنارے جمع ہوکر
بادشاہ سلامت کا استقبال کریں –
دوسرے دن صبح
ہی صبح جب بادشاہ سلامت غسل سے فارغ ہوے تو درزی ایک خالی تھیلے کے ساتھ حاضر ہوا –
بادشاہ سلامت کا لباس اتارا گیا اور پھر
درزی نے تھیلا کھول کر اپنے ہاتھ تھیلے میں ڈالے اور اس طرح باہر نکالے جیسے
ہاتھوں میں کوئی چیز بڑی نزاکت اور احتیاط سے اٹھا رکھی ہے - درزی کے ہاتھ خالی تھے مگر بے وقوف بادشاہ
سلامت کا خیال تھا کہ درزی نے ہاتھوں میں انکا نیا اور انوکھا لباس اٹھا رکھا ہے
جسے وہ اپنی نے وقوفی کے با عث دیکھ نہیں پا رہے - اگرچہ بادشاہ سلامت کو لباس نظر نہیں آرہا تھا
مگر انہوں نے اس ڈر سے ان دیکھے لباس کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملانے شروع
کر دئیے کہ کہیں کوئی انکو بیوقوف نہ سمجھ لے – درزی نے اپنے ہاتھ بادشاہ سلامت کے
اردگرد اس طرح گھمائے جیسے انھیں لباس پہنا رہا ہے – کچھ دیر تک لباس پہنانے کی اداکاری کرنے کے بعد
درزی نے بادشاہ سلامت سے کہا کہ :
"چاند سورج آپ پر قربان ، بادشاہ سلامت اب آپ تیار ہیں - "
بادشاہ سلامت
بہت خوش ہوے اور انہوں نے درزی کو منہ مانگا انعام دے کر رخصت کر دیا جسے لے کر وہ فورا رفو چکر ہوگیا -
![]() |
بے شک قران میں عقل والوں کے لئے نشانیاں ہیں |
جب سر تا پا عریاں بادشاہ سلامت دربار میں حاضر ہوے تو درباریوں نے دانتوں کو سختی سے بھیچ لیا اور نظریں نیچی کرلیں - چند چاپلوس امراء اور وزراء نے بادشاہ سلامت کے "نئے" انوکھے اور بیش قیمت لباس کی تعریف و توصیف میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے شروع کر دئیے جنھیں سن کر بادشاہ سلامت خوشی سے پھولے نہ سماۓ-
اب نام نہاد
انوکھے لباس میں ملبوس ننگے بادشاہ سلامت
حسب وعدہ شہر کے دورے کے لئے نکلے جہاں عوام سڑکوں کے کنارے ان کے استقبال کے لئے
تیار کھڑے تھے –
اب یہاں جو
لوگ عقلمند نا تھے مگر عقلمند ہونے کے دعویدار تھے اور ساتھ ہی عقلمند کہلوانے کے شوقین بھی تھے بادشاہ کے(غیر موجود ) لباس کی تعریفیں
کرنے لگے اور درزی کی ہنر مندی کو سراہنے لگے-
اسکے بر عکس جو لوگ واقعی عقلمند تھے مگر خود کو عقلمند کہلوانے کے شوقین
نہ تھے بادشاہ کے سامنے موت اور قید کے خوف سے خاموش رہے مگر تنہائ میسسر آتے ہی
خوب ہنسے –
کردار :
١- مکار درزی
------------ الله کا رسول
٢- درزی کا
تیار کردہ انوکھا لباس ---------- قرآن
٣- بیوقوف
بادشاہ --------------- سچا مسلمان
٤- بادشاہ کے
چاپلوس امراء اور وزراء-------- مولوی حضرات
٥- ننگے بادشاہ
کا مذاق اڑانے والے بے وقوف لوگ -------- ملحدین
Comments
Post a Comment