قران اور دعوائے بلاغت

تحریر : اینڈرسن شاہ



جب بات قرآن کی بلاغت کی ہوتی ہے تو مسلمان عام طور پر اپنے دلائل مندرجہ ذیل چار بنیادی مفروضوں پر رکھتے ہیں:

١- عربوں کا محمدی قرآن پر حیرت زدہ ہونا۔

٢-  قرآن کا عربوں کو چیلنج کہ وہ اس کے جیسا لا کر دکھائیں۔
٣-  قرآنی چیلنج کی ہمسری کرنے میں عربوں کی ناکامی۔
٤-  مسلم بن حبیب (مسیلمہ) کی قرآن کی ہمسری کرنے کی احمقانہ کوشش۔


 ایک بے مثل معجزہ : قران
ان چار باتوں کو بنیاد بنا کر آخری نتیجہ یہی نکالا جاتا ہے کہ قرآن اللہ کی طرف سے ہے، آئیے دیکھتے ہیں کہ کیا واقعی ایسا ہی ہے؟
١- عربوں کا محمدی قرآن پر حیرت زدہ ہونا۔
جب بات قرآن پر حیرت زدہ ہونے کی آتی ہے تو عام طور پر الولید بن المُغیرہ کا یہ قول بڑے فخر سے اور چھاتی ٹھوک کر نقل کیا جاتا ہے کہ:
❞ان لہ لحلاوۃ، وان علیہ لطلاوۃ، وان اعلاہ لمثمر، وان اسفلہ لمغدق، وانہ لیعلو ولا یعلی علیہ❝ (بخاری)
ترجمہ: اس میں ایک چاشنی ہے، اور بے بہا رونق ہے، اس کا اوپر کا حصہ پھلدار ہے، اور نیچے کا حصہ راحت بخش ہے، بے شک یہ غالب ہے اور اس پر غالب نہیں ہوا جا سکتا۔
تقدیر کا مذاق یہ ہے کہ الولید بن المُغیرہ نامی یہ شخص جس کی لغوی اور بلاغی فصاحت کی مثالیں دی جاتی ہیں محمد پر ایمان لانے والوں میں سے نہیں تھا، اس کے برعکس قرآن نے اس غریب کا ذکر بڑی حقارت سے کیا ہے، مگر کیا واقعی الولید بن المُغیرہ نے قرآن کی مدح کی تھی جیسا کہ حدیث اور اسلامی تاریخ کی کتابیں کہتی ہیں یا قرآن کے بارے میں اس کی رائے کچھ اور تھی؟ یہاں پر بھی تقدیر کا ایک اور گھناؤنا مذاق یہ ہے کہ قرآن نے الولید بن المُغیرہ کی قرآن کے بارے میں رائے نقل کی ہے، آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن الولید بن المُغیرہ کی اُس کے اپنے بارے میں رائے کی بابت کیا کہتا ہے خاص طور سے جبکہ مسلمانوں کے نزدیک قرآن تاریخ سے زیادہ صحت کا حامل ہے کیونکہ یہ براہ راست اللہ کا کلام ہے:
اِنَّہٗ فَکَّرَ وَ قَدَّرَ ﴿ۙ۱۸﴾ فَقُتِلَ کَیۡفَ قَدَّرَ ﴿ۙ۱۹﴾ ثُمَّ قُتِلَ کَیۡفَ قَدَّرَ ﴿ۙ۲۰﴾ ثُمَّ نَظَرَ ﴿ۙ۲۱﴾ ثُمَّ عَبَسَ وَ بَسَرَ ﴿ۙ۲۲﴾ ثُمَّ اَدۡبَرَ وَ اسۡتَکۡبَرَ ﴿ۙ۲۳﴾ فَقَالَ اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا سِحۡرٌ یُّؤۡثَرُ ﴿ۙ۲۴﴾ اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا قَوۡلُ الۡبَشَرِ ﴿ؕ۲۵﴾ (المدثر 18 تا 25)

اس نے غوروفکر کیا اور ایک بات ٹھہرا لی۔ یہ مارا جائے اس نے کیسی تجویز کی۔ پھر یہ مارا جائے اس نے یہ کیسی تجویز کی۔ پھر اس نے نگاہ کی۔ پھر تیوری چڑھائی اور منہ بگاڑا۔ پھر پیٹھ کر چلا اور تکبر کیا۔ پھر کہنے لگا یہ تو جادو ہے جو پہلے لوگوں سے برابر ہوتا آیا ہے۔ پھر بولا یہ اللہ کا کلام نہیں بلکہ بشر کا کلام ہے۔
تو گویا الولید بن المُغیرہ – جس کی لغوی معرفت پر مسلمان فخر کرتے ہیں – کی قرآن کے بارے میں رائے یہ تھی کہ یہ ایک بشر کا کلام ہے، اور یہ رائے بھی اس نے بڑے غور وخوض کے بعد قائم کی تھی جیسا کہ آیات سے واضح ہے، اور اگر یہی بات ہے تو پھر اس نے یہ کب کہا کہ بے شک یہ غالب ہے اور اس پر غالب نہیں ہوا جا سکتا؟ اسے کہتے ہیں تاریخ سے اندھی نقل، یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اسلامی تاریخ خود مسلمانوں نے ہی لکھی ہے، کیا ایسی کسی تاریخ پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے جو کسی قوم نے اپنے اوپر حکم صادر کرنے کے لیے خود ہی لکھی ہو؟! اور پھر یہاں تو حدیث قرآن سے ہی ٹکرا رہی ہے؟
میں ذاتی طور پر اس بات کا قائل ہوں کہ قرآن عربوں کے لیے حیرت کا باعث تھا، لیکن یہ وہ حیرت نہیں ہے جو مسلمان عام طور پر سمجھتے ہیں، عرب اپنی ادبیات میں صرف شعر، نثر اور سجع سے واقف تھے، شاعری جانی پہچانی تھی، نثر خطبوں میں استعمال ہوتی تھی جبکہ سجع کاہنوں کے کلام اور خطبوں میں بھی مستعمل تھی، مگر قرآن نے آکر اس سب کی کھچڑی بنا ڈالی، اس طرح ان کے لیے یہ ایک نئی ادبی جنس تھی، عربوں کی حیرت کی وجہ صرف یہی تھی، قرآن کی اس شکل میں محمد کی توراتی، انجیلی اور قدیم معارف کی اچھی معلومات نے اہم کردار ادا کیا، تاہم لغوی ڈھانچہ اس ضمن میں رتی بھر اہمیت کا حامل نہیں ہے، سوال ابھی بھی اپنی جگہ پر قائم ہے کہ کیا عرب واقعی یہ سمجھتے تھے کہ قرآن کی زبان بلیغ ہے؟
یہ جاننے کے لیے کہ کیا کسی خاص متن میں بلاغت ہے یا نہیں ہمیں اسے اہلِ بلاغت کے سامنے پیش کرنا ہوگا، قریش کسی بھی حال میں اہلِ بلاغت نہیں تھے، وہ چاہے جتنے بھی بلیغ ہوں ان اعراب سے زیادہ بلیغ ہو ہی نہیں سکتے جو بادیہ میں رہتے تھے، خود عرب اپنے بچوں کو بادیہ کی طرف فصاحت وبلاغت سیکھنے کے لیے بھیجا کرتے تھے، لہذا اگر قرآن واقعی اس قدر بلیغ ہے کہ کوئی بھی اس کے سامنے عاجز ہوجائے تو سب سے پہلے جو لوگ اس بات کو سمجھتے وہ بادیہ کے اعراب (بدو) ہوتے، اب سوال یہ ہے کہ قرآن کے حوالے سے اعراب کا کیا موقف تھا؟ کیا قرآن کی لغوی فصاحت وبلاغت سے متاثر ہوکر یہ اعراب جوق در جوق اسلام میں داخل ہونا شروع ہوگئے جیسا کہ ہونا چاہیے؟ یہاں بھی تقدیر کا ایک اور مذاق یہ ہے کہ خود قرآن ہی اسلام اور قرآن کے بارے میں اعراب کی رائے نقل کرتا ہے:
اَلۡاَعۡرَابُ اَشَدُّ کُفۡرًا وَّ نِفَاقًا وَّ اَجۡدَرُ اَلَّا یَعۡلَمُوۡا حُدُوۡدَ مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ ﴿۹۷﴾ (التوبۃ 97)

دیہاتی لوگ پکے کافر اور پکے منافق ہیں اور ایسے ہیں کہ جو احکام شریعت اللہ نے اپنے رسول پر نازل فرمائے ہیں ان سے واقف ہی نہ ہو پائیں۔ اور اللہ جاننے والا ہے حکمت والا ہے۔
تو گویا اعراب جو اہلِ لغت تھے اور قرآن کی فصاحت وبلاغت کا اعتراف کرنے والا سب سے اہلِ طبقہ تھا انہیں قرآن میں کوئی فصاحت اور بلاغت نظر نہیں آئی اور یہی شروع میں ان کے اسلام قبول نہ کرنے کی اہم وجہ تھی، اور بعد میں جب وہ ایمان لے بھی آئے، قرآن نے ان کے ایمان کو مسترد کرتے ہوئے ان کے ایمان کی حقیقت چاک کردی اور ہمیں بتایا کہ ان کا ایمان سچا نہیں تھا بلکہ محض ظاہری تھا:
قَالَتِ الۡاَعۡرَابُ اٰمَنَّا ؕ قُلۡ لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا وَ لٰکِنۡ قُوۡلُوۡۤا اَسۡلَمۡنَا وَ لَمَّا یَدۡخُلِ الۡاِیۡمَانُ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ ؕ وَ اِنۡ تُطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ لَا یَلِتۡکُمۡ مِّنۡ اَعۡمَالِکُمۡ شَیۡئًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۴﴾ (الحجرات 14)
دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے۔ کہدو کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ یوں کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں اور ایمان تو ابھی تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا۔ اور اگر تم اللہ اور اسکے رسول کی فرمانبرداری کرو گے تو اللہ تمہارے اعمال میں سے کچھ کمی نہیں کرے گا۔ بیشک اللہ بخشنے والا ہے مہربان ہے۔
یہ اعراب یعنی اہلِ لغت وفصاحت وبلاغت کا قرآن کے تئیں موقف تھا، قریش اور عرب کے دیگر دھڑے محض اس مالِ غنیمت کی لالچ میں مسلمان ہوئے تھے جن کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا:
لَقَدۡ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذۡ یُبَایِعُوۡنَکَ تَحۡتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ فَاَنۡزَلَ السَّکِیۡنَۃَ عَلَیۡہِمۡ وَ اَثَابَہُمۡ فَتۡحًا قَرِیۡبًا ﴿ۙ۱۸﴾ وَّ مَغَانِمَ کَثِیۡرَۃً یَّاۡخُذُوۡنَہَا ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا ﴿۱۹﴾ وَعَدَکُمُ اللّٰہُ مَغَانِمَ کَثِیۡرَۃً تَاۡخُذُوۡنَہَا فَعَجَّلَ لَکُمۡ ہٰذِہٖ وَ کَفَّ اَیۡدِیَ النَّاسِ عَنۡکُمۡ ۚ وَ لِتَکُوۡنَ اٰیَۃً لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ یَہۡدِیَکُمۡ صِرَاطًا مُّسۡتَقِیۡمًا ﴿ۙ۲۰﴾ (الفتح 18 تا 20)

"اے پیغمبر جب مومن تم سے اس درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے تو اللہ ان سے خوش ہوا۔ اور جو صدق و خلوص انکے دلوں میں تھا وہ اس نے معلوم کر لیا تو ان پر تسکین نازل فرمائی اور انہیں جلد فتح عنایت کی۔ اور بہت سی غنیمتیں وہ آئندہ بھی حاصل کریں گے۔ اور اللہ غالب ہے حکمت والا ہے۔ اللہ نے تم سے بہت سی غنیمتوں کا وعدہ فرمایا ہے کہ تم انکو حاصل کرو گے پھر اس نے یہ غنیمت تمہیں جلدی سے دلوا دی اور لوگوں کے ہاتھ تم سے روک دیئے۔ غرض یہ تھی کہ یہ مومنوں کے لئے اللہ کی قدرت کا نمونہ بن جائے اور وہ تمکو سیدھے رستے پر چلائے۔"
خود اسلامی تاریخ کی کتابیں ہی اس بات کی گواہ ہیں کہ کس طرح محمد کی موت کے بعد عرب اسلام سے مرتد ہوگئے تھے اور مسلمان صرف مکہ اور مدینہ میں ہی باقی رہ گئے تھے یا اِدھر اُدھر کچھ چھوٹے چھوٹے قبیلے جبکہ عرب کی اکثریت مرتد ہوگئی تھی تو کیا وہ لوگ جو قرآن کی فصاحت اور بلاغت سے متاثر ہوکر مسلمان ہوئے تھے وہ مرتد ہوسکتے تھے؟ کیا ان کی رِدت اس بات کا ثبوت نہیں کہ ان کا اسلام لالچ اور موقع پرستی پر مبنی تھا جس کا قرآن اور اس کے نام نہاد معجزے سے کوئی تعلق نہیں تھا؟

٢- قرآن کا عربوں کو چیلنج کہ وہ اس کے جیسا لا کر دکھائیں۔
سچ تو یہ ہے کہ چیلنج کا یہ آئیڈیا کچھ عجیب سا ہے، اللہ کو زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے تقدس اور مقام سے گرتے ہوئے انسانوں سے کسی بھی میدان میں مقابلے کا محاذ کھولے، خاص کر جبکہ چیلنج کا تعلق خالصتاً ایک بشری معاملے سے ہے، زبان خالصتاً انسانی صنعت ہے خدائی نہیں، زبانوں کی تشکیل انسانی معاشرے کرتے ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ اور بلا توقف ترقی کرتی رہتی ہیں اور تبدیل ہوتی رہتی ہیں، کیا ہم میں سے کسی کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ کسی چار سالہ بچے کے سامنے کھڑے ہوکر اسے کسی چیز کا چیلنج کرے؟ بہرحال آئیے دیکھتے ہیں کہ اس صورت میں چیلنج کا کیا مطلب ہے؟ کیا واقعی کوئی شخص کسی چیز جیسی کوئی دوسری چیز لاسکتا ہے جب تک کہ وہ بالکل ویسی نہ ہو؟ مِثل اور مماثلت کیا ہے؟ اگر میں کسی سے یہ مطالبہ کروں کہ وہ اس جیسی کوئی عبارت لاکر دکھائے:
❞القاعدون علی الجمر❝
تو اس کے جیسی عبارت بھی اسی کے جیسی ہی ہوگی:
❞القاعدون علی الجمر❝
اگر کوئی یہ عبارت لے آئے:
❞القاعدون علی الحصی❝
یا:
❞القاعدون علی الصخر❝
تو یہ اس کی جیسی یا مثل نہیں ہے بلکہ یہ الگ عبارتیں ہیں جن کا میری اصل عبارت سے کوئی تعلق نہیں ہے، البتہ ان دونوں عبارتوں کو ہمسری کے باب میں لیا جاسکتا ہے، جیسے قرآن کہتا ہے کہ:
❞لیس کمثلہ شیء❝ (الشوری 11)
اس کے جیسی کوئی چیز نہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ کسی بھی چیز کے جیسی کوئی چیز کبھی نہیں ہوتی، ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ مراد اس کے جیسی بلاغت ہے مگر یہاں مذہبی جذباتیت یہ تعین کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی کہ کیا نیا متن اصل متن کے ہمسر ہے یا نہیں، یہی وجہ ہے کہ مسلمان ایسے کلام کا مذاق اڑاتا ہے:
❞والزارعات زرعا، والحاصدات حصداً❝ (مسلم بن حبیب سے منسوب)
مگر اس کا مذاق نہیں اڑاتا:
❞والعادیات ضبحاً، فالموریات قدحاً❝ (العادیات 1 اور 2)
آخر ان دونوں میں نوعیتی اور بلاغی فرق کیا ہے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ دونوں میں قطعی کوئی فرق نہیں ہے، فرق صرف تقدس کا ہے، مسلمان دوسرے کو اللہ کا کلام سمجھتا ہے لہذا وہ بلیغ ہے چاہے وہ نا بھی ہو اور پہلا چونکہ اس کی نظر میں انسانی کلام ہے لہذا وہ لازماً مضحکہ خیز ہے چاہے وہ نا بھی ہو۔۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ دونوں ہی انتہائی سادہ اور نا پختہ کلام ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ دوسرے کو تقدس حاصل ہے جبکہ پہلے کو وہ تقدس حاصل نہیں ہے۔
٣- قرآنی چیلنج کی ہمسری کرنے میں عربوں کی ناکامی۔
مسلمانوں کا دعوی ہے کہ قرآن کی ہمسری کرنے کا چیلنج اب بھی قائم ہے جو بڑی حیرت کی بات ہے کیونکہ اس چیلنج کو کچھ عہدِ نبوی اور کچھ بعد کے دور میں پورا کردیا گیا تھا، عہدِ نبوی کی اگر بات کی جائے تو عبد اللہ بن ابی السرح اور مسلم بن حبیب اس ضمن میں قابلِ ذکر ہیں، قرآن ہی کی زبانی سنیے:
وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوۡ قَالَ اُوۡحِیَ اِلَیَّ وَ لَمۡ یُوۡحَ اِلَیۡہِ شَیۡءٌ وَّ مَنۡ قَالَ سَاُنۡزِلُ مِثۡلَ مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہ (الانعام 93)

"اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ باندھے یا یہ کہے کہ مجھ پر وحی آئی ہے حالانکہ اس پر کچھ بھی وحی نہ آئی ہو۔ اور جو یہ کہے کہ جس طرح کی کتاب اللہ نے نازل کی ہے اسی طرح کی میں بھی بنا لیتا ہوں"
اس کے علاوہ عربوں کو قرآن کی ہمسری کرنے میں قطعاً کوئی دلچسبی تھی ہی نہیں کیونکہ ان کی نظر میں اس میں ایسا کچھ الگ اور نا قابلِ ہمسری تھا ہی نہیں جس کی ہمسری کرنے کوشش کی جائے، وہ تو اسے محض ایک ایسی کتاب کی صورت میں دیکھتے تھے جو پرانے قصے کہانیاں اور خرافات دہراتی چلی جاتی تھی، اسی لیے النضر بن الحارث نے کہا کہ:
وَ اِذَا تُتۡلٰی عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتُنَا قَالُوۡا قَدۡ سَمِعۡنَا لَوۡ نَشَآءُ لَقُلۡنَا مِثۡلَ ہٰذَاۤ ۙ اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِیۡرُ الۡاَوَّلِیۡنَ ﴿۳۱﴾ (الانفال 31)

"اور جب انکو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں۔ تو کہتے ہیں یہ کلام ہم نے سن لیا ہے اگر ہم چاہیں تو اسی طرح کا کلام ہم بھی کہدیں اور یہ ہے ہی کیا صرف اگلے لوگوں کی حکایتیں ہیں۔"
جہاں تک بعد کے زمانوں کی بات ہے تو چلیے ایک عرب شاعر، ادیب اور فلسفی کی بات کرتے ہیں جس کی کتاب ❞رسالۃ الغفران❝ کا موازنہ دانتے کی ❞خدائی کامیڈی❝ سے کیا جاتا ہے اور جو گزشتہ ہزاریے کی دس بہترین ادبی فن پاروں میں محض اس لیے شامل ہونے سے رہ گئی کیونکہ وہ پہلے ہزاریے میں منظرِ عام پر آئی تھی!! اور جس کی کتاب ❞فقرات وفترات❝ کا شعری انداز ناقدین ادب کے نزدیک قرآن کے ہمسر ہے، بعض ادبی نقاد کا خیال ہے کہ اس نے یہ کتاب محض اس لیے لکھی تاکہ یہ ثابت کر سکے کہ قرآن معجزہ نہیں ہے بلکہ یہ ایسا اس لیے لگتا ہے کیونکہ صدیوں سے اس کے گرد تقدس کی چادر لپٹی رہی ہے، اس کے باوجود کہ یہ شخص محض چار سال کی عمر میں اندھا ہوگیا تھا!! اس نابغہ روزگار کا نام ہے ❞ابو العلاء المعری❝ (363 – 449 ہجری)، (973 – 1057 عیسوی)، یعنی محض ایک اندھے نے قرآن کی ہمسری کر کے دکھا دی۔
سابق الذکر سے معلوم ہوتا ہے کہ مماثلت نا ممکن ہے البتہ ہمسری یقیناً ممکن ہے، لیکن اس کے بعد تقدس کو بائی پاس کرنے کی ہماری صلاحیت رہ جاتی ہے تاکہ ہم فیصلہ کر سکیں کہ کیا کوئی متن واقعی قرآن کی ہمسری کرنے میں کامیاب ہوا ہے یا نہیں، تاہم ایک سوال یہ بھی ہے کہ قرآن کی ہمسری کرنے کا دراصل مطلب کیا ہے؟ اور اس کی حقیقی قدر کیا ہے؟ کیا ایسی آیت:
لَیۡسَ عَلَی الۡاَعۡمٰی حَرَجٌ وَّ لَا عَلَی الۡاَعۡرَجِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلَی الۡمَرِیۡضِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلٰۤی اَنۡفُسِکُمۡ اَنۡ تَاۡکُلُوۡا مِنۡۢ بُیُوۡتِکُمۡ اَوۡ بُیُوۡتِ اٰبَآئِکُمۡ اَوۡ بُیُوۡتِ اُمَّہٰتِکُمۡ اَوۡ بُیُوۡتِ اِخۡوَانِکُمۡ اَوۡ بُیُوۡتِ اَخَوٰتِکُمۡ اَوۡ بُیُوۡتِ اَعۡمَامِکُمۡ اَوۡ بُیُوۡتِ عَمّٰتِکُمۡ اَوۡ بُیُوۡتِ اَخۡوَالِکُمۡ اَوۡ بُیُوۡتِ خٰلٰتِکُمۡ اَوۡ مَا مَلَکۡتُمۡ مَّفَاتِحَہٗۤ اَوۡ صَدِیۡقِکُمۡ ؕ لَیۡسَ عَلَیۡکُمۡ جُنَاحٌ اَنۡ تَاۡکُلُوۡا جَمِیۡعًا اَوۡ اَشۡتَاتًا ؕ فَاِذَا دَخَلۡتُمۡ بُیُوۡتًا فَسَلِّمُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِکُمۡ تَحِیَّۃً مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ مُبٰرَکَۃً طَیِّبَۃً ؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الۡاٰیٰتِ لَعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ ﴿۶۱﴾ (النور 61)
کو عاجز کردینے والا ایسا خدائی متن قرار دیا جاسکتا ہے کہ لوگ اس کی ہمسری کرنے میں ناکام ہوجائیں؟ گالی گلوچ جیسا کلام لانے کے چیلنج میں کیا حقیقی وجاہت ہے؟ عُتُلٍّۭ بَعۡدَ ذٰلِکَ زَنِیۡمٍ (سخت خو اور اس کے علاوہ بدذات ہے۔ – القلم 13) ہم سمجھتے ہیں کہ گالیاں کبھی خدائی قول ہو ہی نہیں سکتیں، لیکن یہاں سارا مسئلہ تقدس کا ہے جس کا تعلق قلبی اور وجدانی ایمان سے ہے عقلی منطق سے نہیں، ایسے میں چاہے متن کی قدر کچھ بھی ہو وہ ہمیشہ ہمسری کی سطح سے کم ہی قرار پائے گا، لیکن جیسے ہی ہم اس تقدس سے جان چھڑانے میں کامیاب ہوجائیں گے تب ہم منصفانہ انداز میں ایسے مُتون پر عادلانہ حکم صادر کر سکیں گے۔
٤- مسلم بن حبیب (مسیلمہ) کی قرآن کی ہمسری کرنے کی احمقانہ کوشش۔
میں نے مسلم بن حبیب سے منسوب مُتون کا کافی مطالعہ کیا ہے جو سارا کا سارا اسلامی تاریخ کی کتابوں میں درج ہے اور کوئی ایک بھی ایسا مخطوطہ آج تک دریافت نہیں ہوا جو یہ تصدیق کر سکے کہ یہ کلام واقعی مسلم بن حبیب کا ہے، اور ظاہر ہے کہ اسلام کے مخالفین کا ذکر اسلامی کتابوں میں تحقیر سے ہی کیا جائے گا اور کیا جاتا بھی ہے، تو کیا یہ مُتون واقعی مسلم بن حبیب کے ہیں یا اُس سے بُہتاناً منسوب ہیں؟ اس سوال کی وجاہت اس اعتقاد کی سادہ لوحی میں مضمر ہے کہ یہ مُتون واقعی مسلم بن حبیب کے ہیں، اپنے قرآن کی بے ہودگی کے باوجود جیسا کہ مسلمان سمجھتے ہیں مسلم بن حبیب عربوں کے ایک بہت بڑے طبقے کو اپنی نبوت کا قائل کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا، اسلامی تاریخ خود ہی ردت کی جنگوں میں مسلم بن حبیب کی فوج کے سامنے اسلامی فوج کی شکست کا ذکر کرتی ہے، مسلمانوں کے خلیفہ ابو بکر کے دور میں عکرمہ بن عمرو المخزومی کی قیادت میں ایک فوج مسلم بن حبیب سے لڑنے کے لیے بھیجی گئی مگر اسے بدترین شکست کا سامنا ہوا اور عکرمہ کو اپنی باقی ماندہ فوج کے ساتھ وہاں سے بھاگنا پڑا اور تب تک انتظار کرنا پڑا جب تک خالد بن الولید کی قیادت میں ایک نئی فوج نہیں بھیج دی گئی، اسلامی مؤرخین کے مطابق اس جنگ میں مسلم بن حبیب کی فوج کی تعداد چالیس ہزار تھی!! یہ تو محض اس کی فوج کی تعداد ہے، اس پر ایمان لانے والوں کی کُل تعداد کتنی رہی ہوگی؟ مسلم بن حبیب کی نبوت کو ماننے والوں کو اپنے ایمان کے دفاع میں موت تک منظور تھی، اسی طرح جس طرح مسلمانوں کو تھی، یہ بھلا کون سا ایمان ہے جو مسلم بن حبیب جیسے احمق نے ان کے دلوں میں ڈال دیا تھا؟ کیا اس زمانے میں لوگوں کو بے وقوف بنانا اتنا ہی آسان تھا کہ مسلم بن حبیب جیسا شخص جو اسلامی مؤرخین کے مطابق چار شعر ٹھیک سے نہیں کہہ سکتا تھا لوگوں کو بے وقوف بنا سکتا تھا؟ اگر معاملات ایسے ہی ہیں تو پھر اس دور کے اسلام قبول کرنے والے لوگوں کے بارے میں بھی کئی سوالات اٹھ کھڑے ہوں گے کہ کیا وہ لوگ جہلاً ایمان لائے تھے، لالچ کی وجہ سے ایمان لائے تھے یا دلیل کی وجہ سے؟ مسلم بن حبیب اتنے سارے لوگوں کو اپنی نبوت کا اس طرح قائل کرنے میں کامیاب کیسے ہوگیا کہ وہ اس کے لیے اپنی جان تک قربان کر ڈالیں؟، یہاں دو ہی امکان ہیں:
١- عربوں کی فصاحت وبلاغت کے بارے میں ہماری معلومات درست نہیں ہیں اور ان کا از سرِ نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
٢- مسلم بن حبیب سے منسوب وہ قرآن جو ہم تک پہنچا ہے جعلی ہے۔
اس سب میں اگر ہم یہ بات بھی شامل کر لیں کہ مسلم بن حبیب الحنفی کی نبوت محمد کی نبوت سے پہلے تھی، اور یہ کہ مسلم بن حبیب عربوں میں ❞رحمن الیمامۃ❝ کے نام سے مشہور تھا اور یہ کہ جب محمد نے مشرکینِ قریش سے کہا کہ: ❞اسجدوا للرحمن❝ (رحمن کو سجدہ کرو) تو انہوں نے کہا کہ: ❞ما نعرف الا رحمن الیمامۃ❝ (ہم تو صرف یمامہ کے رحمن کو جانتے ہیں – یعنی مسلم بن حبیب) تو ہم یہ سوال کرنے میں یقیناً حق بجانب ہیں کہ محمد اپنی نبوت کہاں سے اور کیسے لایا؟ ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ قرآن کے معاملے میں کون کس کی نقل کر رہا تھا، محمد مسلم کی یا مسلم محمد کی، لیکن اگر ہم یہ جان لیں کہ مسلم بن حبیب کی نبوت محمد کی نبوت سے پہلے تھی تو ہم یہ آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ کون سا متن زیادہ پرانا ہے، ایسی صورت میں یہ سوال ضرور اٹھے گا کہ کیا محمد مسلم کے قرآن کی نقل کر رہا تھا؟ تاریخ کی کتابیں ہمیں بتاتی ہیں کہ مسلم بن حبیب نامی یہ شخص عربوں میں بہت محبوب شخص تھا، اس کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ عرب کے مشہور شاعر عبد الرحمن بن مصطفی العیدروس الحسینی نے اس کی مدح میں ایک قصیدہ لکھا اور اس کی شان میں زمین وآسمان کے قلابے ملا دیے:
بدیعاً احوماً غنجاً لعوباً
ظریفاً وجہہ حاز الوسامۃ
بمفرق شعرہ والحسن یبدی
صباحی والدجی من فوق ہامۃ
رنا ریماً واسفر بدر تم
وصال مثقفاً وشدا حمامۃ
وصدق العشق اوقفنی علیہ
فسلوانی مسیلمۃ الیمامۃ
تو گویا وہ کوئی برا شخص نہیں تھا بلکہ عربوں میں اس کی ایک الگ شان اور اعلی مقام تھا، تو کیا ایک ایسے شخص سے ایسے فرسودہ مُتون منسوب کیے جاسکتے ہیں؟ یا عرب اتنے اُلو کے پٹھے تھے کہ اس کے ایسے بے ہودہ کلام سے ہی متاثر ہوکر اس پر ایمان لے آئے تھے جیسا کہ اسلامی تاریخوں میں نقل کیا گیا ہے؟
عقل مندوں کو سلام!

نوٹ: اینڈرسن شاہ کے مزید آرٹیکلز پڑھنے کے لئے یہاں 
کلک کریں -


---------------------------------------------- مرکزی صفحہ ----------------------------------------------

Comments

Popular posts from this blog

خدا اور فرشتوں کے درمیان ایک مکالمہ

ایک کہانی بہت پرانی

معراج نبوی ــ قرآن احادیث اور تاریخ کی روشنی میں