دہرا عذاب ، دہرا معیار
تحریر: گلریز شمسی️
افغانستان بلا شبہ وہ ملک ہے جس کے باشندوں نے اسلام کی سر بلندی کے لئے تحاشا قربانیاں دی ہیں - ظاہر شاہ کے دور کا تعلیم یافتہ، خوشحال اور تہذیب و تمدن کا گہوارہ افغانستا ن ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوا اور اب اسکی سڑکوں پر جگہ جگہ جسمانی اعضاء سے محروم بارودی سرنگوں کے متاثرین بےبسی اور لاچاری کی تصویر بنے گھومتے نظر آتے ہیں – ظاہر شاہ کے دور میں افغان خواتین تعلیم حاصل کرنے اور ملازمت کرنے سمیت اپنی زندگی کے مختلف معاملات میں اس حد تک آزاد اور خود مختار تھیں جس حد تک ایک عزت دار انسان کو ہونا چاہیے – یونیورسٹی کی طالبات اسکرٹ اور بلاوز زیب تن کرکے یونیورسٹی جایا کرتی تھیں اور ریپ اور جنسی زیادتی کے واقعات شاذ و نادر ہی سننے میں آیا کرتے تھے
![]() |
کبری خادمی : غیرت مندوں کے تمسخر کا نشانہ بنتے ہوۓ |
سن انیس سو تہتر میں جب ظاہر شاہ علاج کی غرض سے اٹلی میں مقیم تھے توان کے کزن داؤد خان ( جو کہ اس وقت افغانستان کے وزیر اعظم بھی تھے ) نے ظاہر شاہ کا نا صرف تختہ الٹ دیا بلکہ افغانستان کو ریپبلک (جمہوریہ ) قرار دے کر خود کو اسکا صدر بھی نامزر کر دیا -
داؤد خان ظاہر شاہ سے بھی زیادہ ترقی پسند تھے - انہوں نے افغانستان کو مزید جدیدیت کی راہ پر گامزن کیا ، خواتین کی تعلیم اور ترقی کی مزید حوصلہ افزائی کی اور چند ہی سالوں میں افغان لیبر فورس میں پچاس فیصد یعنی دوگنا اضافہ کردیا -
داؤد خان نے افغانستان کو ریپبلک یعنی جمہوریہ تو قرار دے دیا تھا مگر جمہوریت کے ثمرات یعنی عوامی سیاست سے خوفزدہ ہوگئے- سن انیس سو اٹھتر میں انہوں نے ملک میں کمیونسٹ پارٹی کے بڑھتے ہوے اثر و رسوخ اور مقبولیت سے خوفزدہ ہو کر کمیونسٹ پارٹی کے لیڈرز کی گرفتاری کا حکم دے دیا – اس حکم کی وجہ سے ملک میں ہنگامے پھوٹ پڑے جنکا نتیجہ یہ نکلا کہ سن انیس سو اٹھتر میں ہی داؤد خان کو قتل کر دیا گیا –
داؤد خان کے قتل کے بعد افغانستان کا سنہرا دور اپنے اختتام کو پہچا اور افغانستان جنگ کی لپیٹ میں آگیا جو کہ آج تک جاری ہے –
جنگ کے دوران ہی افغانستان سے جدیدیت کا خاتمہ ہوا اور لوگوں کے دلوں میں ایمان کی شمعیں روشن ہوئیں- ایمان کی شمعیں روشن ہونے کا نتیجہ یہ نکلا کے عورتوں اور لڑکیوں کی مصیبت آگئی اور ان پر تعلیم اور ملازمتوں کے دروازے کافی حد تک بند ہوگئے – تمام عورتیں نیلے شٹل کاک برقعوں میں چھپادی گئیں جسکے نتیجے میں افغانستان میں مخصوص انسانی وقار کی حامل عورتیں ناپید ہوگئیں اور عورت کے نام پر تماشا باقی رہ گیا –
افغانستان کی نئی نسل سے تعلق رکھنے والے مردوں کے لئے عورت ایک عجوبے کی حیثیت اختیار کر چکی ہے کیونکہ انہوں نے آج تک نظر بھر کر کسی عورت کو دیکھا ہی نہیں ہے- یہی وجہ ہے کہ موجودہ دور میں افغانستان کے پبلک مقامات پر کسی بھی تنہا عورت کو دیکھ کر اسلام پسند خودپر کنٹرول کھو بیٹھتے ہیں، اس عورت کے گرد منڈلانا شروع کردیتے ہیں اور موقع پاتے ہی اس کے جسم کے نسوانی اعضاء یعنی سینے اور کولہوں کو چھونا اور ٹٹولنا اپنا حق سمجھتے ہیں- ایسی خواتین اس زیادتی کے خلاف کوئی احتجاج بھی نہیں کرسکتیں کیوں کہ افغانستان میں رائج اسلامی قوانین کی رو سے اس قسم کے واقعات کی ذمہ دار عورت خود ہے جو کہ مرد کے بغیر گھر سے باہر نکلتی ہے -
کبری خادمی (جو کہ ایک ستائیس سالہ افغان خاتون ہیں) نے اسلام پسندوں کے اس رویے کے خلاف احتجاج کا ایک انوکھا طریقہ نکالا – انہوں نے ایک مقامی لوہار سے دھات کی بنی ہوئی ایک ایسی حفاطتی جیکٹ تیار کروائی جسے انگیا کی طرح سینے پر پہنا جاسکتا تھا اور اسی طرح اس سے کولہوں کو بھی ڈھانپا جاسکتا تھا- کبری نے یہ جیکٹ نا صرف تیار کروائی بلکہ اسے پبلک مقامات پر پہنا بھی –
اسلام پسندوں کو کبری کا یہ بے باکانہ احتجاج ایک آنکھ نا بھایا اور انہوں نے اسے قتل کی دھمکیاں دینا شروع کردیں جنکی وجہ سے کبری کو رو پوش ہونا پڑا -
وہ مومن جو مغربی ممالک میں ریپ کے خلاف ہونے والے خواتین کے احتجاج اور مظاہروں کا تمسخر اڑاتے ہیں اسلامی ممالک کے بارے میں کیا کہیں گے جہاں خواتین پر جنسی مظالم تو عام سی بات ہیں مگر انھیں ان مظالم کے خلاف احتجاج کا کوئی حق نہیں ؟؟
نوٹ: گلریز شمسی کے مزید آرٹیکلز پڑھنے کے لئےیہاں کلک کریں
---------------------------------------------- مرکزی صفحہ ----------------------------------------------
Comments
Post a Comment