مجھے اسلام نے الحاد سکھایا
تحریر: گلریز شسمی
مسلمان جب بھی کسی غیر مسلم کو دعوت اسلام دیتا ہے تو اس بات کا دعوا بڑے ہی دھڑلے سے کر دیتا ہے کہ اسلام دنیا کا وہ واحد مذھب ہے جو مردوں اور عورتوں کو برابر کے حقوق دیتا ہے اور جنس کی بنیاد پر کسی قسم کی عدم مساوات کو فروغ نہیں دیتا ، مگر میں نے بچپن میں ہی محسوس کر لیا کہ مسلمان مرد اور مسلمان عورت کے درمیان جنسی عدم مساوات کا سلسلہ اس دن سے شروع ہوتا ہے جس دن وہ اس دنیا میں جنم لیتے ہیں ، اور اس دن تک جاری رہتا ہے جس دن وہ قبر میں اترتے ہیں-
میں نے جس دن سوشل میڈیا پر پہلی بار اسلام سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا اس دن سے لے کر آج تک سینکڑوں بار مومنین مجھ سے یہ سوال کر چکے ہیں کہ آخر وہ کیا حالات تھے جن کے با عث میں نے اسلام ترک کرکے الحاد اختیار کیا ؟
کچھ مومنین نے اپنے طور میرے
بارے میں کچھ اندازے بھی لگاۓ مثال کے طور پر کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ میں نے مختلف مذھب مخالف مصنفین کی تحریروں سے متاثر
ہو کر الحاد اختیار کیا ، کچھ مومنین (خاص طور پر مومنات) کا یہ خیال ہے کہ میں
کسی ملحد کی محبت میں گرفتار ہوکر اور اسکے ساتھ شادی کرنے کی خواہش میں ترک اسلام
کر بیٹھی ہوں، اور کچھ لوگوں کا خیال ہے
کہ میں کسی قادیانی ، ہندو یا یہودی لابی کا حصہ ہوں جو اسلام مخالف ایجنڈے پر کام
کر رہی ہے اور معاوضے کے طور پر ڈالرز وصول کر رہی ہے – وغیرہ وغیرہ -
ان تمام مفروضات کی تردید کی خاطر میں اپنے ترک اسلام اور قبول الحاد
کا قصہ گروپس میں شیئر کر رہی ہوں ملاحظہ کیجیے :
--------------------------------------------------------
بچپن میں کھیل ہی کھیل میں جب بھی کبھی بھائی مجھ پر ہاتھ اٹھاتا اور میں امی سےاس کی شکایت کرتی تو امی بھائی کو ڈانٹنے یا سمجھانے کے بجاۓ الٹا مجھے سمجھانا شروع کر دیتیں اور کہتیں :
بچپن میں کھیل ہی کھیل میں جب بھی کبھی بھائی مجھ پر ہاتھ اٹھاتا اور میں امی سےاس کی شکایت کرتی تو امی بھائی کو ڈانٹنے یا سمجھانے کے بجاۓ الٹا مجھے سمجھانا شروع کر دیتیں اور کہتیں :
" بیٹا وہ آپکا بھائی ہے، اور بھائی سے ناراض نہیں ہونا چاہیے اور اسکی
شکایتیں بھی نہیں کرنی چاہییں – "
اسی طرح اگر کبھی کھیل ہی کھیل میں میں اپنے کسی بھی بھائی کو کاٹ لیتی یا نوچ لیتی اور وہ امی کے
پاس شکایت لے کر جاتا تو جب بھی امی کے غصے کا نشانہ میں ہی بنا کرتی تھی یعنی بھائیوں کو وہ کبھی کچھ نا کہتیں - سگی ماں کا یہ رویہ مجھے کبھی حیرت میں مبتلا
کردیتا تھا اور کبھی دکھ میں مگر امی ایسا کیوں کیا کرتی تھیں اس سوال کا جواب
مجھے اس وقت ملا جب میری عمر دس سال ہوئی -
جب میری عمر دس سال ہوئی تو ہمارے پڑوس میں رہنے والی ایک خاتون(
جنھیں ہم سعدیہ خالہ کہا کرتے تھے) نے دو جڑواں بچوں کو جنم دیا – بچوں کے دادا نے
اپنے پوتے اور پوتی کی رسم عقیقہ ادا کرنے کی خاطر تین بکرے خریدے اور انھیں اپنے
گھر کے صحن میں باندھ دیا - دیگر بچوں کی
طرح مجھے بھی جانوروں سے بے حد لگاؤ تھا لہذا میں دن میں کئی کئی بار بکرے دیکھنے جایا
کرتی تھی – جب بکرے ذبح ہوے تو مجھے بہت دکھ ہوا اور میں نے رونا شروع کر دیا - جب میں نے رونا شروع کیا تو امی نے سمجھایا کہ:
" بیٹا یہ بکرے تو سعدیہ خالہ کے اسد اور اقصیٰ کے عقیقے کے لئے
تھے جو کہ ایک طرح کا صدقه ہوتا ہے اور جب ہم کسی کا صدقہ اتارتے ہیں تو الله اسکی
جان پر آنے والی مصیبتیں اور بلائیں دور کر دیتا ہے – "
انہوں نے مزید سمجھایا کہ :
" عقیقہ ایک سنت ہے
اس لئے یہ رسم ادا کرنا ثواب کا کام ہے –"
امی کا جواب کافی حد تک تسلی بخش تھا مگر ان کے
سامنے کوئی عام بچی نہیں بلکہ گلریز شمسی تھی
جسے بہلانا کوئی آسان کام نا تھا -
مجھے امی کے جواب سے تسلی نا ہوئی تو میں نے مزید سوال کیا :
" اسد اور اقصیٰ تو دو بچے ہیں تو پھر انکے عقیقے کے لئے تین بکرے کیوں کاٹے گئے؟؟؟ کیا تھا جو ہم ان میں سے سفید والا چھوٹا
بکرا (جو کہ بہت پیارا تھا) خرید کر پال لیتے ؟؟؟
میرے اس سوال کا میری امی نے
جو جواب دیا وہی جواب میرے دل میں الحاد کا بیج بونے کا با عث بنا – امی کا جواب
کچھ یوں تھا :
" بیٹا دو بکرے اسد کے لئے تھے اور ایک بکرا اقصیٰ کے لئے تھا
کیونکہ اسد لڑکا ہے اور اقصیٰ لڑکی ہے- ہمارے مذھب میں لڑکے کی حیثیت اور اہمیت لڑکی کی حیثیت اور
اہمیت سے سے دگنی ہوتی ہے اسلئیے لڑکے کی
جان کا صدقه بھی لڑکی کی جان کے صدقے سے دوگنا ہوتا ہے – اور ایسا اس لئے ہے
کہ یہ اللہ کی مرضی ہے- اس پر بحث نہیں
کرنی چاہیے کیونکہ جو لوگ ایسی باتوں پر بحث کرتے ہیں انھیں بہت گناہ ملتا ہے اور الله ان سے ناراض ہو جاتا ہے - "
امی کے اس جواب نے مجھے اندر سے بہت زیادہ بے چین کر دیا اور مجھے
کافی حد تک یہ بات سمجھ میں آگئی کے میری اور بھائی کی لڑائی میں امی ہمیشہ بھائی
کا ہی ساتھ کیوں دیتی تھیں –
یہ وہ وقت تھا جب مجھے الحاد کے معنی بھی نہیں معلوم تھے ، میرے دل
میں اسلام کے لئے محبت بھی بہت تھی اور
میرے ابا مجھ سے پیار بھی بہت کیا کرتے تھے اس لئے میں نے چند دن بعد خود کو یہ سوچ کر کافی حد تک بہلا لیا کہ شاید امی کو اسلام کے بارے میں کچھ
زیادہ نہیں معلوم کیونکہ وہ زیادہ پڑھی لکھی نہیں ہیں –
اگرچہ میں نے خود کووقتی طور پر بہلا تو لیا مگر یہ بات میرے ذہن سے مکمل طور پر
نا نکل سکی اور اسی بات نے میرے ذہن میں
اسلام سے متعلق بہت زیادہ تجسس پیدا کر
دیا اور مجھے اسلام کے مطالعے پر اکسایا (میں اس وقت تک قران ختم کر چکی تھی )- یہی وجہ تھی کہ دس سال کی عمر سے ہی میں نے اخبارات ، رسائل اور
درسی کتابوں میں موجود مذہبی مواد کا بغور مطالعہ شروع کر دیا – اس وقت چونکہ عمر بھی کم تھی اور ذہن بھی نا پختہ تھا اس لئے کچھ باتیں سمجھ میں
آجاتیں اور کچھ باتیں سمجھ میں نا بھی آتیں
لیکن چونکہ درسی کتابیں لکھنے والے اور مشہور اخبارات اور رسائل میں لکھنے
والے ہمیشہ مذھب کا مثبت پہلو اجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہیں لہٰذا بچپن کا یہ مطالعہ میرے دل و دماغ میں کسی قسم کی بغاوت پیدا کرنے کا باعث
نہ بن سکا مگر مذھب سے متعلق عقیدت اور
تجسس میں اضافے کا باعث ضرور بن گیا –
ان ہی دنوں مجھے نعتیں پڑھنے کا شوق ہوا اور میرا شمار اسکول کے
بہترین نعت خواں بچوں میں ہونے لگا - جب
میں میٹرک کے امتحان سے فارغ ہوئی اور مجھے فرصت کا کافی وقت میسر آیا تو میں نے
اس وقت کا مثبت استمعال کرتے ہوے قران کا اردو ترجمہ پڑھنے کا فیصلہ کیا – جیسے
جیسے میں یہ ترجمہ پڑھتی گئی ویسے ویسے میرا ذہن الجھتا گیا کیونکہ مجھے قران میں جگہ جگہ ایسی باتیں نظر آئیں جو کہ
کسی بھی طرح میری فطرت سے میل نہیں کھاتی تھیں اور مجھے مکمل طور پر غیر فطری
محسوس ہوئیں - جب میں نے مذھب سے متعلق اپنے ذہن میں پلتی ہوئی
الجھنوں کا تذکرہ اپنے گھروالوں کے سامنے کیا تو کوئی ہنس پڑا ، کوئی ناراض ہوا اور کسی نے
بڑے ہی پیار سے سمجھایا کہ مجھے مذہبی فرائض یعنی نماز ، روزہ وغیرہ کی پابندی
کرنی چاہیے اور مذہنی احکامات کے معاملے میں بحث تکرار سے گریز کرنا چاہیے - میں نے اگرچہ اس مشورے پر عمل کرنے کی کافی کوشش
کی مگر مجھے کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل
نہ ہوسکی اور مذھب سے متعلق میرا تجسس
بڑھتا گیا یہاں تک کے میں نے اپنے گھر سے کافی فاصلے پر موجود لائبریری کی ممبر شپ
حاصل کی اور وہاں سے اسلامی کتابیں جن میں
احادیث کی مستند ترین سمجھی جانے والی چھ کتابیں (صحاح ستہ) بھی شامل تھیں ایشو کروا کر پڑھنا شروع کر دیں
-
اگرچہ میں مذہبی کتابوں کا مطالعہ اپنے ذہن میں( قران کے مطالعے کے
بعد) پیدا ہونے والی الجھنوں کو سلجھانے کی غرض سے کر رہی تھی مگر یہ الجھنیں کسی بھی صورت کم ہونے میں نہیں آرہی
تھیں بلکہ ان میں بتدریج اضافہ ہوتا جا رہا تھا –
جب میں گریجویشن کے آخری سال میں تھی تو ایک دن ذہنی پریشانی سے تنگ
آکر گھروالوں کو بتاۓ بغیر پاکستان کی ایک مشہور یونیورسٹی میں واقع ایک بہت مشہور
مذہبی اسکالر کے دفتر جا پہنچی اور اپنے ذہن میں موجود سوالات یکے بعد دیگرے انکے
سامنے رکھنے شروع کر دئیے- کچھ دیر تو وہ
اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجاۓ بڑی خوش اخلاقی سے میرے سوالات کے جوابات دینے کی کوشش
کرتے رہے لیکن کچھ ہی دیر بعد انکے چہرے پر غصہ اور بیزاری واضح نظر آنے لگی اور انہوں نے مجھے وہی مشورہ دیا جو ان سے پہلے کافی لوگ دے چکے
تھے (یعنی مذہبی احکامات کے معاملے میں بحث تکرار سے گریز کا مشورہ ) ساتھ ہی
انہوں نے مجھے یہ بھی یاد دلادیا کہ خدا نے کبھی بھی کسی عورت کو پیغمبر کے درجے
پر فائز نہیں کیا کیونکہ عورت کے اندر
اتنی صلاحیت ہی نہیں کہ وہ مذہبی احکامات کو سمجھ سکے –
مولانا صاحب سے ملاقات کے بعد مجھ پر وقتا فوقتا ڈپریشن کے دورے پڑنے
لگے جنکے باعث نہ صرف میرا کھانا پینا بہت
کم ہوگیا بلکہ میری نظر بھی تیزی سے کمزور ہونے لگی – کبھی دل چاہتا کہ چیخ چیخ کر
روؤں ، کبھی دل چاہتا کہ خدا کو گالیاں دوں ، کبھی دل چاہتا کہ قرآن کو آگ لگا دوں
اور کبھی دل چاہتا کہ جس خدا نے مجھے کمتر اور حقیر بنایا اسکی دی ہوئی زندگی اسکے
منہ پر مار دوں - میں نے دو بار خود کشی
کی غرض سے نیند کی گولیاں خریدیں مگر انھیں کھا نے کی ہمت نہ کر سکی اور دونوں بار
انھیں پھینک دیا – ایک دن رات ساڑھے تین بجے جب تمام گھر والے اپنے اپنے بستروں
میں گہری نیند سو رہے تھے تو میں نے اٹھ
کر اپنے کمپیو ٹر کی ٹرالی کا شیشہ توڑ ڈالا اور اس شیشے سے اپنا گلا کاٹنے کا
ارادہ کیا مگر یا تو موت یا تکلیف کے خوف سے یا پھر شاید زندگی سے محبت کے باعث اس ارادے پر بھی عمل نہ
کر سکی –
کہتے ہیں کہ جب درد حد سے بڑھ جاتا ہے تو دوا ہو جاتا ہے، میرے ساتھ
بھی کچھ ایسا ہی ہوا - کچھ دن بعد رنج الم کا یہ ریلا آپ ہی آپ بہہ
گیا لیکن جاتے جاتے اپنے ساتھ میرے دل میں
موجود مذھب اسلام کی محبت اور اسلامی شخصیات سے متعلق عقیدت بھی بہا کر لے گیا - میں اب اسلام سے مکمل طور پر بیزار ہوچکی تھی
لہذا میں نے ناصرف قران اور اسلامی کتابوں کا مطالعہ مکمل طور پر ترک کردیا
بلکہ ساتھ ہی ساتھ نماز اور روزے سے بھی مکمل طور پر اجتناب برتنا شروع کر دیا - اب میں بطور مشغلہ پاکستانی ، بھارتی اور انگلش
موسیقی سنتی ، فلمیں دیکھتی اور اردو اور انگلش کلاسیکل اور ترقی پسند ادب کا
مطالعہ کرتی تھی –
زندگی اسی طرح گزر رہی تھی کہ
اچانک ایک دن مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ ترک اسلام کے باوجود بھی میں دن میں کئی بار
خدا کا نام لیتی ہوں اور لاشعوری طور پر اسے یاد کرتی ہوں اور ساتھ ہی مجھ پر یہ انکشاف بھی ہوا کہ اب
میں خدا کا نام سنتے ہی وہ بے چینی اور بے قراری محسوس نہیں کرتی جو ایمان کی حالت
میں کیا کرتی تھی کیونکہ خدا اب میرے لئے
کوئی ظالم ولن نہیں رہا (جیسا کہ اسلام اسے بنا کر پیش کرتا ہے ) بلکہ محبوب و
مددگار کا درجہ اختیار کر چکا
ہے(جوکہ میرا دل تسلیم کرتا ہے ) – یہ
صورت حال میرے لئے بہت حوصلہ افزا تھی کیونکہ اب میرا دل ہر قسم کے رنج و الم اور بے چینی سے پاک ہوچکا تھا -
سن دوہزار سترہ میں جب ولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشال خان پر توہین مذھب کا الزام لگا کر اسے
ظالمانہ طریقے سے قتل کر دیا گیا اور ہر طرف یہ خبریں گردش کرنے لگیں کے وہ سوشل
میڈیا پرتوہین آمیز مواد پبلش کیا کرتا تھا تو میں نے تجسس کے ہاتھوں مجبور
ہوکراسکا کا پروفائل وزٹ کیا اور یہاں
میری ملاقات ہیومینسٹ لاج نامی الحادی گروپ
کے ایڈمن سے ہوئی – اسے جب مذھب سے متعلق میرے خیالات کا علم ہوا تو اس نے مجھے
اپنے گروپ میں شمولیت کی دعوت دی جو میں نے قبول کر لی اور اس طرح میں سوشل میڈیا
پر موجود الحادی گروپس کا حصہ بن گئی – اب
صورت حال یہ ہے مجھے لکھنے کی غرض سے قرآن اور اسلامی ادب کا مطالعہ ایک بار پھر
کرنا پڑ رہا ہے لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ جو اسلامی حقائق مجھے کچھ سال پہلے آٹھ آٹھ آنسو رلایا کرتے تھا اب بے تحاشا ہنساتے
ہیں اور جو اسلامی تعلیمات کبھی مجھے دن رات تڑپایا کرتی
تھیں اب اٹھتے بیٹھتے گدگدایا کرتی ہیں --------
تھیں اب اٹھتے بیٹھتے گدگدایا کرتی ہیں --------
گلریز شمسی کے مزید آرٹیکلز پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں-
---------------------------------------------- مرکزی صفحہ ----------------------------------------------
---------------------------------------------- مرکزی صفحہ ----------------------------------------------
Comments
Post a Comment