مدینہ کی ریاست ــ حصہ دوم


خلافت حضرت عمر 


حضرت ابو بکر نے مرض وفات میں حضرت عمر کو اپنا جانشین نامزد کیا، اسی نامزدگی کی بنیاد پر حضرت ابو بکر کے بعد خلافت حضرت عمر نے سنبھالی۔ ابوبکر نے عجمی ممالک کے خلاف جہاد جاری رکھنے کی جو وصیت کی تھی،اسے حضرت عمر نے جاری رکھا۔ ہرمز کے جنگ میں ہارنے سے دجلہ کے حصے کو چھوڑ کر پورےملک عراق پر قبضہ ہو چکا تھا۔ ایران کے شاہی خاندان اہل کسریٰ طوائف الملوکی کا شکار اور باہم برسرپیکار تھے۔ 


مال غنیمت اور کشور کشائ

ابو عبیدہ کی قیادت میں ایران کی فتح کی جانب پہلا شدید
  معرکہ ہوا۔ ابو عبیدہ نے دشمن کے اطراف کا تمام علاقہ برباد کر دیا۔ اور مال غنیمت جمع کر لیا۔ بکثرت لونڈیاں اور غلام بنائے گئے۔ خوراک کے بے شمار ذخیرے ہاتھ آئے،آس پاس کے عربوں کو بلا کر بھی کہا کہ و ہ جتنا لے جانا چاہتے ہیں لے جائیں۔ نرسی جو کسری کا خالہ زاد بھائی تھا، اس کے تمام خزانے قبضہ کر لئے۔ ابو عبیدہ نے جب خمس کا حصہ حضرت عمر کو ارسال کیا، تو ساتھ لکھا، ’’اللہ تعالی نے ہم کو وہ چیزیں کھانے کے لئے عطا کی ہیں، جن کی سلاطین فارس حفاظت کرتے تھے۔۔‘‘ وہاں اعلی نسل کے پھلوں کے باغات تھے، جو صرف شاہی خاندان کے لئے ہی مخصوص تھے۔ ‘‘ فارس کو فتح کرنے کے کئی حملے کئے جاتے رہے۔ کسریٰ کے پاس مسلم سفیر بھی بھجوائے جاتے رہے،اسلامی سفارت میں یہی پیغام ہوتا، اسلام قبول کرو، یا جزیہ دو، یا لڑنے کے لئے تیار ہو جاؤ۔ مختلف مقامات پر خون ریز معرکے ہوتے رہے۔جن میں دو طرفہ ہزاروں لوگ بے دردی سے قتل کئے جاتے رہے۔ 

ایران ایک ترقی یافتہ اعلی تہذیب کا حامل ملک تھا۔ بادشاہ اور رؤساء کے اتنے عالیشان محلات اور باغات تھے اور شہر اتنے خوبصورت تھے، کہ صحراء میں رہنے والے تمدنی اور تہذیبی لحاظ سے پس ماندہ عرب اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ مال غنیمت ساٹھ ہزار لشکریوں میں تقسیم ہوا۔خمس کا حصہ بھی خلیفہ کو روانہ کر دیا گیا۔ ان میں ہزارہا نہایت قیمتی نوادرات اور عجائبات تھے ۔کسری کا قالین 90 گز لمبا اور 60 گز چوڑا تھا۔ اس میں پھول پتیاں، درخت، نہریں، تصویریں، سونے کی تاریں اور جواہرات جڑے تھے۔ جب یہ چیزیں مدینہ پہنچیں، دیکھنے والے مسلمانوں کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں۔ حضرت علی نے رائے دی، اس کو کاٹ کر لوگوں میں تقسیم کر دیا جائے۔!!! حضرت علی کے حصے میں آنے والا ٹکڑا تیس ہزار درھم میں فروخت ہوا۔ 

عربوں کی فطری جبلت 


ابن خلدون لکھتا ہے، مال غنیمت کا پانچواں حصہ جو مدینہ پہنچا، اس کی مالیت تین کروڑ تھی، ہر سوار کو نو نو ہزار درہم اور نو نو گھوڑے ملے۔ فاروق اعظم مال غنیمت اور جواہرات کے ڈھیر دیکھ کر رو پڑے۔ عبدالرحمان نے کہا، امیر المومنین، یہ تو مقام شکر ہے،آپ کیوں رو دیئے؟، فاروق اعظم نے جواب دیا۔ جس قوم کو اللہ تعالی دولت دیتا ہے، اس میں رشک اور حسد آ جاتا ہے۔ 

عرب قبائل عہد رسالت سے ہی مال غنیمت پر جھگڑا کرتے آ رہے تھے۔ ان میں غنیمت کا لالچ اسلامی اخوت، ایثار، اور اتحاد سے زیادہ غالب تھا۔ قبائلی عصبیت کا یہ حال تھا، کہ ہر قبیلے کی الگ الگ مسجدیں ہوتی تھیں۔ اور وہ جدا جدا محلوں میں رہتے تھے۔ مدائن میں مچھروں نے عربوں کو تکلیف دی، تو سعد نے عمر کو اس بارے میں لکھا، عمر نے جواب دیا،’’ عربوں کی حالت اونٹ سی ہے، ان کو ایسی جگہ راس نہیں آ سکتی، جو اونٹ کو راس نہ آئے۔‘‘حضرت عمر کی ایران پر فتح سے وسطی ایشیاء اور ہندوستان پر فتح کے دروازے کھل گئے۔ 

حضرت عمر کا قتل 

حضرت عمر پر قاتلانہ حملے کا پس منظر کچھ یوں ہےکہ ایک ایرانی غلام جو مال غنیمت میں اپنے عرب مالک مغیرہ بن شعبہ کو ملا تھا، حضرت عمر کے خلاف شکایت لے کر آیا کہ اس کا مالک اس سے زیادہ خراج (اس کی کمائی کا حصہ) وصول کرتا ہے۔ غلام ہنر مند تھا، اور وہ آہن گری، نقاشی اور نجاری وغیرہ کے مختلف کام کرتا تھا۔ حضرت عمر نے کہا، چونکہ تم کئی کام کرتے ہو، اس لئے تمہارا خراج زیادہ نہیں۔ اس واقعے کے تیسرے دن حضرت عمر صبح کی نماز کے لئے مسجد تشریف لائے۔ صف بندی کے بعد جب حضرت عمر نے تکبیر پڑھی۔ وہ غلام نمازیوں میں گھس آیا، اور امیر المومنین پر خنجر کے چھ وار کر دیئے۔ قاتلانہ حملہ کے تیسرے دن حضرت عمر کا نومبر644ء میں انتقال ہو گیا۔ (آپ کی ازواج میں ام کلثوم بنت علی بھی شامل تھی ) دونوں کی عمروں کا فرق اور رشتے داری کے ملغوبے کا اندازہ آپ خود کر لیں، حضرت عمر کی بیٹی حفصہ پیغمبر اسلام کی بیوی تھیں۔ 

عربوں کی فتوحات کا موازنہ 

مدینہ کی ریاست کے کارپرداز عربوں کی فطرت سے واقف تھے کہ ان کو دو چیزیں پسند ہیں، لڑائی اور مال غنیمت لوٹنا۔ اسلامی فتوحات کی سرعت اور وسعت کو دیکھ کر عش عش کرنے والوں کے لئے عرض ہے کہ مسلمانوں سے پہلے اور بعد میں کئی فاتح حملہ آوروں نے اسی طرح کی فتوحات حاصل کی تھیں۔ قیصر اعظم، اسکندر اعظم، نپولین اعظم، چنگیز خان، تاتاری اور تیمور کی فتوحات ایسی ہی شاندار تھیں۔ چنانچہ ان فتوحات کا اسلام کے کسی معجزے یا جذبے سے کوئی تعلق نہ تھا۔ قومیں جب اٹھیں، تو اسی طرح اپنے اپنے زمانے میں طوفان کھڑے کئے۔ رومن ایمپائر، جرمن ایمپائر، ہسپانوی ایمپائر اپنے عروج میں حضرت عمر کی سلطنت سے زیادہ عروج پر تھیں۔ 

عرب اور فارس کا ثقافتی ٹکراؤ 

ملک فارس پر عرب یلغار 

دوسری بات جو اہم ہے، جب اسلام کی فتوحات شروع ہوئیں، تو اہل فارس اور اہل روم کی مملکتوں میں قومی ، معاشرتی اور مذہبی انتشار کا زمانہ تھا۔ مال غنیمت کے چار حصے لشکریوں میں تقسیم ہوتے تھے، وہ اس فائدے کے حصول کے لئے بڑے جوش سے لڑتے تھے۔ حضرت عمر جبراً مفتوح رعایا کو اسلام میں داخل کرنے کے بھی خلاف تھے۔ آپ کے سیاسی کردار میں عرب نیشنل ازم اور قبائلی چھاپ نمایاں تھی۔آپ نے شام کے دورے کے دوران معاویہ کا شاہانہ تزک و احتشام دیکھ کر کہا، معاویہ یہ کیا فرعونیت ہے؟۔ اسی طرح بیت المقدس کے دورے کے دوران یزید، ابو عبیدہ، اور خالد بن ولید کی حریری قباؤوں کو دیکھ کر برہم ہوئے، اور کہا، دو ہی برس میں تم نے عجمیوں کی عادتیں اپنا لیں۔ اس برہمی کا تعلق اسلام کے اصولوں سے نہیں تھا، عمر پرانے پس ماندہ قبائلی اقدار کی نمائندگی کر رہے تھے، اور اسلام کے فاتح کمانڈر نئی مال و دولت اور نئی طرز زندگی سے آشنا ہو رہے تھے۔ 

بے پناہ مال غنیمت آنے سے عربوں کی زندگی کا معاشرتی، تہذیبی، ثقافتی، نقشہ بدل رہا تھا۔ ایرانی لونڈیوں اور غلاموں کے ذریعے لہو و لعب کی محفلیں جمنے لگیں۔ اسلامی روایت کا خاتمہ ہونے لگا۔ دولت کی فراوانی اتنی تھی کہ حضرت عمر پوچھا کرتے تھے، کہ اس دولت کا کیا کروں؟۔ چنانچہ انصار اور قریش کے قبائل کی مردم شماری کرا کر ایک رجسٹر بنایا گیا تاکہ تمام گروہوں اور طبقات میں حسب مراتب دولت کی تقسیم کی جا سکے۔ ازواج مطہرات کا دس دس ہزاردرہم کا وظیفہ مقرر ہوا، حضرت عائشہ کو دوہزار زیادہ دیئے گئے۔ حسن ، حسین، سلمان فارسی، ابوذر غفاری کو پانچ پانچ ہزار درہم وظیفہ مقرر ہوا۔ 

لیکن ایران کی فتح کے بعد عربوں اور ایران میں جو شدید تضاد پیدا ہوگیا ، وہ خطرناک نتائج کا حامل تھا۔ عربوں کی معیشت خانہ بدوش اور قبائلی تھی۔ ان کو کھانے پینے اور رہنے سہنے کا ڈھنگ نہیں آتا تھا۔ ایران کے پارسیوں میں علوم عقلیہ کا بہت فروغ ہو چکا تھا۔ اور وہ ایک بلند تہذیبی سطح پر زندگی گزار رہے تھے۔ چنانچہ ان میں ایک قومی تشخص اور تفاخر تھا۔ بدوی عربوں نے ایران کی تہذیب و ثقافت کو برباد کیا، ان کے شہروں کو لوٹ لیا، ایرانیوں نے زرتشت مذہب چھوڑ کر اسلام تو قبول کر لیا، لیکن عربوں کے خلاف ان کی نفرت کم نہ ہوسکی۔ 

عرب اور فارس کا ثقافتی فرق 

ساسانی عہد کی ایک شاندار عمارت

ابن خلدون لکھتا ہے کہ حضرت سعد بن وقاص نے حضرت عمر کو لکھا کہ ہمیں یہاں بہت سے کتب خانے ملے ہیں۔ ان کے بارے میں کیا کیا جائے ؟ اگر اجازت ہو تو مسلمانوں میں ان کو بھی تقسیم کر دیا جائے۔ حضرت عمر نے فرمان جاری کیا، ان کو دریا برد کر دو۔ اگر ان میں ہدایت ہے، تو وہ ہمیں پہلے ہی مل چکی ہے، اور اگر گمراہی ہے تو اس کی ہمیں ضرورت نہیں۔ چنانچہ کتابوں کو دریا برد کیا اور کچھ کو جلا دیا گیا۔ اس واقعہ سے بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ بانیان اسلام کس قدر علم دوست تھے۔ حضرت عمر کے سامنے ایران سے جو اسیران جنگ لائے گئے،ان میں ایرانی شہنشاہ یزدگرد کی تین بیٹیاں بھی تھیں۔ حضرت عمر نے ان کو فروخت کرنے کا جب حکم دیا، حضرت علی نے فرمایا، شہزادیوں کے ساتھ تو ایسا سلوک ٹھیک نہیں جو عام لوگوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ حضرت علی نے قیمت بیت المال میں جمع کروا کر ان تینوں لڑکیوں کو خرید لیا، ان میں سے ایک لڑکی حضرت عمر کے بیٹے عبداللہ کو، ایک لڑکی حضرت ابو بکر کے بیٹے محمد کو، اور ایک اپنے صاحب زادے حضرت حسین کو دی۔ انہیں کے بطن سے زین العابدین پیدا ہوئے تھے۔ ایرانیوں پر اموی استبداد کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے مسلمان ہونے کے بعد عربوں کے اس گروہ کا ساتھ دیا، جو اموی حکمرانوں کے خلاف تھا، یعنی حضرت علی اور ان کی اولاد۔ ایرانیوں کے تحت شعور میں مزدک، زرتشت اور مانی تعلیمات جان گزیں رہیں۔ اور وہ مختلف صورتوں میں باہر نکلتی رہیں۔ جس نے بالآخر اسلامی دور کی سب سے بڑی عقلی تحریک “اعتزال” کا روپ دھارا۔ 


-ارشد محمود کے مزید آرٹیکلز پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں


---------------------------------------------- مرکزی صفحہ ----------------------------------------------

Comments

Popular posts from this blog

خدا اور فرشتوں کے درمیان ایک مکالمہ

ایک کہانی بہت پرانی

معراج نبوی ــ قرآن احادیث اور تاریخ کی روشنی میں